کرونا اور عالمی منظر نامہ!!!

0
178
جاوید رانا

جاوید رانا، بیوروچیفشکاگو

قارئین کرام! ہفتہ رفتہ میں گو کہ پاکستان کے حوالے سے بعض اہم واقعات ایسے بھی ہیں جو ضبط تحریر میں لائے جا سکتے ہیں، مثلاً یوم پاکستان کی پریڈ کی مشقوں کے درمیان پاک فضائیہ کے ونگ کمانڈر نعمان اکرم کی F-16 کی خرابی پر آبادیوں کو بچانے کیلئے اپنی جان نچھاور کر دینے کی حب الوطنی، وزارت خارجہ کی سابق ترجمان و اعلیٰ عہدیدار تسلیم اسلم کا نوازشریف کی بھارت سے وفاداری میں اور پاکستان کے مفاد کیخلاف وزارت خارجہ کو ایڈوائس کا انکشاف یا پاکستانی سیاست کے عظیم الشان رہنما ڈاکٹر مبشر حسن کی رحلت اور ان کا روشن کردار لیکن وہ جو کہتے ہیں کہ اس وقت ایک سینئر صحافی کے بقول کرونا ڈارلنگ نے ساری دنیا کو اضطراب اور موت کے خلاف اللہ یاد دلا دیاہے، سو کیوں نہ اس حوالے سے اسی موضوع پر کچھ بات کر لی جائے۔
دنیا بھر میں اقتدار اور برتری کی دعویدار اقوام و ممالک سے لے کر مجبور حکمرانوں و عوام تک کرونا نے سب کو ہلا کر رکھ دیا ہے۔ چین کے صوبے ہووان سے آغاز کرنے والے وائرس نے اب تک دنیا کے 157 ممالک کو اپنی لپیٹ میں اس طرح لے لیا ہے کہ کورونا نام کی اس حسینہ کی سفاکیاں ہی موضوع گفتگو ہیں۔ ہر براعظم، ہر ملک، ہر حکومت، دنیا بھر کی قیادتیں، میڈیا، ادارے سب ہی اس سفاک دشمن کی چیرہ دستیوں سے خوفزدہ ہیں، اس سے نپٹنے اور تحفظ کیلئے برسرپیکار ہیں۔ معیشت زوال پذیر ہے، اسٹاکس نچلی سطحوں پر آچکے ہیں، کاروبار اثر انداز ہو رہے ہیں۔ لوگ ایک دوسرے سے ملنے سے کترا رہے ہیں، کرونا کے سد باب اور اس سے بچاﺅ کیلئے امریکہ سمیت دنیا بھر میں نیشنل ایمر جنسی کا نفاذ کر دیا گیا ہے، اربوں، کھربوں ڈالر اس حوالے سے مختص کر دیئے گئے ہیں تاکہ لوگوں کو اس سے بچایا جا سکے لیکن لگتا یہ ہے کہ قدرت کی جانب سے ان قوتوں اور قوموں کیلئے یہ ایک اشارہ یا وارننگ ہے جو اپنی برتری اور خواہشوں کے بوجھ تلے انسانیت کو پامال کرنے اور دوسروں کو تاراج کرنے میں اپنی تباہی و بربادی کو بھول گئی تھیں۔
دیکھا جائے تو اس وقت ایک وائرس نے ساری دنیا کو عالمگیر جنگ یا شورش سے دوچار کر دیا ہے اور اس کی لپیٹ میں محمود و ایاز سب ہی آچکے ہیں۔ امریکہ، یورپ، ایشیائ، آسٹریلیا حتیٰ کہ افریقہ تک کے ممالک میں سڑکیں ویران ہیں، خوف و ہراس کی شدید فضاءہے۔ عبادت گاہوں میں جانے سے گریز کیا جا رہا ہے۔ یہاں تک کہ مذہبی مقامات پر بھی لوگوں کے اجتماع کو روک دیا گیا ہے، خانہ کعبہ میں طواف و سعی پر پابندی ہے۔ بیت المقدس میں حضرت عیسیٰؑ کے جائے پیدائش کہلائے جانے والے بیت اللحم جانے اور دیوار گریہ پر یہودی افراد پر پابندی کے ساتھ ویٹی کن سٹی میں کیتھولک عیسائی عبادت گاہ میں بھی اجتماعات پر پابندی لگا دی گئی ہے۔ یہ تمام صورتحال اس بات کی واضح نشاندہی کرتی ہے کہ قدرت جب اپنے فیصلے کرتی ہے تو اس کے آگے کسی بھی دنیاوی قوت کا بس نہیں چل سکتا ہے اور کوئی بھی اس سے بچ نہیں سکتا یہی وجہ ہے کہ اب ہر متاثرہ ملک و قوم اپنے انداز سے مالک حقیقی کی جانب رجوع کرنے پر مجبور ہے۔ پاکستان، یورپ سمیت متعدد ممالک اور خطوں میں دعاﺅں، وظیفوں کےساتھ اب امریکہ میں صدر ٹرمپ نے یوم دعا کا اعلان کر دیاہے۔ اس کےساتھ ہی لوگوں کو صفائی رکھنے، مختلف احتیاطی تدابیر کرنے کیلئے ہدایات جاری کی جا رہی ہیں۔ ہاتھ بار بار دھوئیں، سینٹیائزر استعمال کریں، چہرے پر ہاتھ نہ لگائیں، چھینک آئے تو منہ کے سامنے ہاتھ نہ رکھیں۔ غضب یہ ہوا کہ یہاں امریکہ میں کسی کو چھینک آئے تو Bless You کہا جاتا تھا، کرونا کے بعد اگر کسی کو چھینک آتی ہے تو ساتھ والا Mess You کہہ کر دور بھاگتا ہے، ہمیں وہ منظر بھی دیکھنے کو نہیں مل رہے کہ جب پریمی پنچھی سر عام ایک دوسرے سے بوس و کنار کرتے نظر آتے تھے۔
ایک وائرس نے ساری دنیا کا نظام ہلا کر رکھ دیا ہے، ہمیں اپنا وہ جملہ ایک بار پھر لکھنا پڑ رہا ہے کہ اس کرونا ڈارلنگ نے محمود و ایاز کو یکجا کر دیا ہے، غریب ملکوں کے متوسط اور نادار اگر اس محبوب یا محبوبہ کی زلف کے اسیر ہوئے ہیں تو دوسری جانب ٹرمپ کی بیٹی، ٹوروڈو کی اہلیہ، منگولیا کے صدر بھی اس ڈارلنگ کے عشق کا شکار ہوئے ہیں۔ دنیا کی بزرگ ترین ملکہ برطانیہ بھی اس کے خوف سے بکنگھم پیلس چھوڑ کر ونڈسر محل منتقل ہو گئی ہیں۔ سنجیدگی سے اس تمام تر صورتحال کا جائزہ لیں تو دنیا میں ہونےوالے ان واقعات و اقدامات پر قدرت کی جانب سے یہ وارننگ ہے جو مقتدر قوتوں نے محکوموں، مظلوموں پر جاری رکھے ہوئے ہیں۔ شام، بھارت، ایران، عراق، جموں و کشمیر، یمن اور فلسطین میں لاک ڈاﺅن کرنے والوں کو بہ مجبوری آج اپنے ملکوں کو لاک ڈاﺅن کرنا پڑا ہے۔ اسی کو مثال بنا کر دیکھا جائے تو مقبوضہ کشمیر کے تقریباً آٹھ ماہ سے لاک ڈاﺅن کرنےو الے، شہریت کے قانون کے حوالے سے بھارت میں مسلمانوں کے قتل عام کرنے والے اور پاکستان کو سارک کے حوالے سے اہمیت نہ دینے و الے درندے مودی کو پاکستان سے کرونا کے حوالے سے سارک اجلاس کے انعقاد کیلئے منہ ہلاناپڑا۔ عراق، شام، ایران کو کیمیائی وائرس سے حملہ کرنے دھمکی دینے والے ٹرمپ کو امریکہ کو نیشنل ایمرجنسی کے نام پر لاک ڈاﺅن کرنا پڑا، وہ بھی ایک ایسے وائرس کی وجہ سے جس کے علاج کیلئے ابھی تک کوئی ویکسین موجود نہیں اور اس حوالے سے متضاد آراءسامنے آرہی ہیں۔
ہماری ان سطور سے یہ تاثر ہر گز نہ لیا جائے کہ ہم کسی خاص مذہب، ملک، ملت یا قوم کے حوالے سے یہ اظہار کر رہے ہیں۔ اس قسم کے حالات جہاں بعض قوموں کے مظالم و غیر فطری و غیر انسانی اعمال پر تنبیہہ ہوتے ہیں وہیں اپنے مرکز سے بھٹکنے والوں کیلئے قدرت کی جانب سے اشارہ ہوتے ہیں۔ کچھ حلقوں کا تو یہ بھی کہنا ہے کہ ہر صدی کے بیسویں سال اس قسم کی وباﺅں اور انتشار کا برس ہوتا ہے اور وہ 18 ویں صدی سے اس صدی تک ہونے والے ایسے واقعات کا سوشل میڈیا پر حوالہ دے رہے ہیں۔ گزشتہ صدیوں کی تصدیق و تحقیق تو ہم نہیں کر سکتے البتہ یہ ضرور جانتے ہیں کہ اس دور میں دنیا کے گلوبل ویلیج بن جانے اور سمٹ جانے کے باعث برائیاں اور اخلاقی و انسانی اقدار کی پامالی اب کسی ملک یا معاشرے تک ہی محدود نہیں رہی ہے، سوشل میڈیا کے طوفان نے اب ملکوں یا اقوام کو نہیں ہر گھر اور ہر فرد کو اپنی گرفت میں لے لیا ہے جو فرد سے لے کر اقوام اور معاشروں کے بنیادی اصولوں و خصائص کو بھی تباہ کر رہا ہے۔ دیگر ممالک کو چھوڑ کر اگر ہم پاکستان میں ہی سوشل میڈیا کے کردار اور معاشرے میں اس کے اثرات پر نظر ڈالیں تو اسلامی جمہوریہ میں مذہب، معاشرت، سیاست، تخریب، خود پسندی، مفاد کا ہی دور دورہ ہے، جھوٹ، خلفشار، فحاشی و عریانیت کی تمام حدیں پھلانگی جا رہی ہیں۔ حکومت کی ریگولیشن کی تحریک پر مخالفت کا بھونچال برپا ہو رہا ہے جس میں سوشل میڈیا کےساتھ نام نہاد NGOS، سیاستدان بھی شور شرابا کر رہے ہیں۔ افسوس یہ کہ ہمارے میڈیا اور سیاستدان دنیا بھر کو درپیش کرونا وائرس کے حوالے سے پاکستان کے سیکیورٹی پلان اور اقدامات پر بھی اپنی سیاسی مخالفانہ روش اختیار کئے ہوئے ہیں۔ مخالفین حکومت سے تعاون و اتحاد کا عملی مظاہرہ کرنے کی بجائے نکتہ چینی کرنے اور ہم ہوتے تو یوں کرتے کی بحث میں اُلجھے ہوئے ہیں۔ وقت کا تقاضا تو یہ ہے کہ تمام سیاسی، حکومتی، ریاستی و انتظامی حلقے نیز میڈیا و سوشل میڈیا اس آزمائش میں متحد و یکجا ہو کر ملک و عوام کو اس وائرس سے نجات کیلئے عمل پیرا ہوں۔ کہیں ایسا نہ ہو کہ ڈارلنگ وائرس سب کیلئے زہریلا وائرس ثابت ہو۔ عالمی صحت کے اداروں اور ماہرین کی پیشگوئیاں تو بہت ہی تشویشناک ہیں ،صرف امریکہ میں ہی ایک ملین (دس لاکھ) افراد کے متاثر ہونے کی پیشگوئی ہے۔ خدا کرے کہ پیشگوئی غلط ثابت ہو ویسے کرونا وائرس کا ایک مثبت پہلو یہ سامنے ضرور آیا ہے کہ تمام دنیا جنگ و جدل، نفرت و دشمنی اور دعوﺅں بھڑکوں سے ہٹ کر ایک ہی نقطہ پر یعنی کرونا پر قابو پانے کیلئے کمر بستہ ہے۔ ہو سکتا ہے یہ صورتحال عالمی طور پر Blessing in Disguise بن جائے کاش ایسا ہو۔
٭٭٭

LEAVE A REPLY

Please enter your comment!
Please enter your name here