وزیر اعظم کی سربراہی میں قومی رابطہ کمیٹی کے اجلاس میں لاک ڈاﺅن میں دو ہفتے توسیع سمیت متعدد اقدامات اور پالیسیوں کی منظوری دی گئی ہے۔ کورونا وبا کے باعث ملک میں بڑھتے ہوئے انتظامی‘ سماجی اور معاشی مسائل پر غور کے لئے قومی رابطہ کمیٹی کے اجلاس میں تمام صوبوں کے وزرائے اعلیٰ اور عسکری و سول اداروں کے سربراہوں نے شرکت کی۔ کورونا سے نمٹنے کے لئے اب تک یہ قومی سطح کا سب سے بڑا سرکاری اجلاس کہا جا سکتا ہے۔ کمیٹی کو وفاقی وزیر منصوبہ بندی و ترقی اسد عمر اور معاون خصوصی برائے صحت ڈاکٹر ظفر مرزا نے ملک بھر میں کئے گئے حفاظتی اقدامات اور جاری منصوبوں سے آگاہ کیا۔ کورونا کی وبا کئی طرح کے چیلنج لے کر ہمارے سامنے آئی ہے۔ وہ قوم جسے سیاسی اور فکری دھڑے بندی نے کمزور کر دیا‘ جسے مسلکی اختلافات نے معذور بنا کر رکھ دیا اسے یہ باور کرانا بہت مشکل ہدف ہے کہ کورونا نے کسی ایک گھر کو نشانہ بنایا تو پوری بستی خطرے کی زد میں آ سکتی ہے۔ اس بستی میں رہنے والا ہر شخص خواہ وہ کسی عقیدے‘ نسل یا زبان بولنے والے گروہ سے تعلق رکھتا ہو اسے وبا سے متاثر ہونے کا خطرہ لاحق ہو گا۔ پاکستان ہماری بستی ہے۔ یہاں چار صوبے ہیں‘ آزاد کشمیر‘ گلگت بلتستان جیسے علاقے ہیں۔ قومی سطح پر یہ بات اب تسلیم کی جانے لگی ہے کہ سابق حکومتوں نے قومی ترقی کے لئے درست منصوبے بندی کی نہ اپنی ترجیحات کو ٹھیک رکھا۔ سب سے بڑا سرمایہ انسان ہے۔ جن قوموں نے انسانوں پر سرمایہ کاری کی انہیں ترقیاتی منصوبوں کا غازہ لگا کر قوم کے ترقی یافتہ ہونے کا تاثر پیش کرنے کی نوبت نہیں آئی۔ دو سال قبل ایک رپورٹ میں بتایا گیا تھا کہ افرادی قوت پر سرمایہ کاری کرنے کے حوالے سے پاکستان 164درجے پر آتا ہے۔ اس درجہ بندی کا تعین تعلیم اور صحت کے شعبوں پر سرمایہ کاری سے کیا گیا۔ روانڈا‘ تنزانیہ جیسے ممالک بھی پاکستان سے بہتر حالت میں ہیں۔ بھارت اس فہرست میں 158ویںاور امریکہ 27ویں درجے پر آتا ہے۔ اسی رپورٹ میں بتایا گیا تھا کہ پاکستان جس نوع کی معاشی مشکلات کا شکار ہے ان کی وجہ بھی صحت اور تعلیم کے شعبوں پر سرمایہ کاری کا کم ہونا ہے۔ اس تحقیقی رپورٹ میں بتایا گیا تھا کہ صحت اور تعلیم کا کس طرح معاشی ترقی میں کردار ہے۔ کورونا کی وبا کسی ایک صوبے اور علاقے تک محدود نہیں رہی۔ اس وبا نے اب تک ساڑھے پانچ ہزار پاکستانیوں کو شکار بنایا ہے۔ سینکڑوں صحت یاب ہو کر گھروں کو لوٹ گئے اور اب اپنے خاندان کے ساتھ وقت گزار رہے ہیں مگر بعض جگہ انتظامی نرمی اور اداروں کے درمیان بہتر تال میل نہ ہونے کے باعث مریضوں کی تعداد میں اضافہ ہو رہا ہے۔ شروع میں بلوچستان کے علاقے تفتان میں ایران سے آنے والے زائرین کو کورونا پھیلانے کا ذریعہ سمجھا گیا۔ اس دوران حکومت سے ہوائی اڈوں پر حفاظتی انتظامات کرنے میں بوجوہ تاخیر ہوئی۔ ضروری سکینراور حفاظتی آلات کا بندوبست کرنے میں جو وقت خرچ ہوا اس کے دوران برطانیہ‘ سپین اور اٹلی سے کورونا سے متاثرہ مریض اپنے آبائی علاقوں میں پہنچ گئے۔ پہلے مرحلے پر صرف بارڈر بند کر کے اور ہوائی اڈوں کو قرنطینہ میں بدل کر کورونا کو روکا جا سکتا تھا‘ دوسرا مرحلہ مقامی آبادی کا ایک دوسرے کو کورونا وائرس منتقل کرنا تھا۔ پاکستان اس وقت دوسرے مرحلے میں ہے جہاں ٹیسٹ کرنے کی صلاحیت اور حفاظتی انتظامات کے لئے پورے ملک میں یکساں پالیسی کی اشد ضرورت محسوس کی جا رہی ہے۔ بلا شبہ اب تک کورونا انسداد کی جو کوششیں کی گئی ہیں وہ وفاق کی سطح پر ہوں یا صوبوں کی سطح پر‘ ان کوششوں میں خلوص نیت اور عوام کے لئے دردمندی ظاہر ہوتی ہے۔ ایک ایسا ملک جو معاشی بحران سے دوچار ہو اور جہاں پہلے ہی غربت کی دلدل میں دھنسے افراد کی تعداد کم نہ ہو وہاں کورونا نے ہر طرح کے کاروبار کو متاثر کیا ہے‘ پاکستان میں سرکاری دفاتر اور بعض نجی اداروں کے کام کا کچھ حصہ آن لائن طریقہ کار اختیار کر کے انجام دیا جا رہا ہے مگر سوا کروڑ کے لگ بھگ دیہاڑی دار اور کئی کروڑ ایسے ملازمین جو نجی کاروبار سے وابستہ ہیں ان کے لئے روز مرہ گھریلو اخراجات پورے کرنا مشکل ہو رہا ہے۔ وفاق نے احساس کفالت پروگرام کے تحت لاکھوں خاندانوں کو نقد امداد پہنچانے کا قابل ستائش اقدام کیا ہے۔ صوبے اپنی سطح پر الگ امدادی سکیمیں شروع کر چکے ہیں۔ مرکز اور صوبوں کا مقصد ایک ہے کہ کورونا کا خاتمہ ہو لیکن ہر صوبے کی مرکز کے ساتھ ہم آہنگی مختلف ہے اس لئے اس بحرانی دور میں بھی سیاسی اختلافات موجود ہیں اور کورونا کے انسداد کی کوششوں کو نقصان پہنچانے کا باعث بن رہے ہیں۔ ان حالات میں حکومت کے لئے یہ ممکن نہیں کہ وہ ہنگامی حالات میں اپنی مصروفیات روک کر ناراض شخصیات اور اپوزیشن کو منانے میں وقت ضا ئع کرے۔ تاہم جن صوبوں میں دوسری جماعتوں کی حکومت ہے انہیں عوام نے مینڈیٹ دیا ہے اس لئے حکومتی سطح پر مل بیٹھنے سے قومی اتفاق رائے پیدا ہونے کے امکانات ہیں۔ جس طرح قومی رابطہ کمیٹی میں قوم کو سیاسی اتفاق رائے سے فیصلے کرنے کا عزم کیا گیا اور وزیر اعظم نے الگ ملاقات میں آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ کے ساتھ سکیورٹی اور امدادی امور پر تبادلہ خیال کیا اس سے امید پیدا ہو رہی ہے کہ تقسیم در تقسیم قوم اپنے معمولی اختلافات سے نجات حاصل کر کے کورونا کی موجودہ وبا اور مستقبل کے چیلنجز سے نبرد آزما ہونے کے لئے متحد ہو کر زیادہ قوت کے ساتھ دنیا کے سامنے آئے گی۔
٭٭٭