آئی ایم ایف کی طرف سے ہنگامی امداد!!!

0
385

عالمی مالیاتی ادارے کے ایگزیکٹو بورڈ نے کورونا وبا سے نمٹنے کے لئے پاکستان کو 1.386ارب ڈالر قرضے کی منظوری دے دی ہے۔ آئی ایم ایف نے یہ منظوری اپنے ریپڈ فنانسنگ انسٹرومنٹ پروگرام کے تحت دی ہے۔ آئی ایم ایف کے بورڈ نے قرضے کی منظوری خصوصی کرنسی ایس ڈی آر کی شکل میں دی ہے جس کی قدر دنیا کی پانچ بڑی کرنسیوں امریکی ڈالر‘ برطانوی پاﺅنڈ‘ یورو‘ چینی یوآن اور جاپانی ین کی قیمت پر منحصر ہوتی ہے۔ آئی ایم ایف بورڈ کے ڈپٹی مینجنگ ڈائریکٹر کا کہنا ہے کہ کوویڈ 19کی وبا پھیلنے سے پاکستانی معیشت کو بہت نقصان پہنچ رہا ہے۔ اندرونی طور پر اس پھیلاﺅ کو روکنے کے اقدامات اور عالمی تجارت میں مندی کے باعث معیشت بری طرح متاثر ہوئی ہے۔ اس صورت حال میں بیرونی ادائیگیوں کا توازن بگڑ چکا ہے۔ آئی ایم ایف کی فراہم کردہ امداد کو صحت کے شعبے کو مضبوط بنانے‘ معیشت کو قابل اعتماد بنانے اور دیگر مخیر اداروں کو ترغیب دینے کے لئے استعمال کیا جا سکے گا۔ملک کی معیشت میں کورونا کی وجہ سے پیدا ہونے والی خرابیوں کی اصلاح کے لئے سٹیٹ بنک نے شرح سود میں 2فیصد کمی کا فیصلہ کیا ہے۔ گزشتہ ایک ماہ کے دوران شرح سود پر مجموعی طور پر 4.25فیصد کمی کی گئی ہے۔ تحریک انصاف برسر اقتدار آئی تو ملک میں شرح سود 8.50فیصد تھی۔ آئی ایم ایف سے بیل آﺅٹ پیکیج کے لئے مذاکرات کا سلسلہ شروع ہوا تو حکومت کو شرح سود میں اضافہ کرنا پڑا۔ پہلے مرحلے میں یہ شرح 10فیصد تک کی گئی۔ آئی ایم ایف نے پاکستان پر پیشگی شرط عائد کی کہ بیل آﺅٹ پیکیج کے حصول کی خاطر اسے شرح سود میں مجموعی طور پر 6فیصد اضافہ کرنا ہو گا۔ گزشتہ دو برس کے دوران یہ پہلا موقع ہے کہ شرح سود سنگل ڈیجٹ میں لایا گیا ہے۔ مالیاتی ماہرین اس بات کو تاریخی قرار دے رہے ہیں کہ پالیسی ریٹس میں ایک ماہ کے دوران اس قدر تیزی سے کمی کی نظیر پہلے پاکستان میں موجود نہیں تھی۔ معاشی ماہرین اس بات پر زور دیتے رہے ہیں کہ ملک میں افراط زر کی شرح پالیسی ریٹ کے مساوی ہونی چاہیے۔ کورونا کو ماضی قریب کی ڈینگی وبا سے قطعی مختلف حیثیت حاصل ہے۔ تاحال اندازے اور قیاس سے بتایا جا رہا ہے کہ کورونا وائرس کس طرح ایک انسان سے دوسرے انسان کو منتقل ہوتا ہے۔ اب تک سب سے موثر طریقہ یہی ثابت ہوا ہے کہ ہر وہ جگہ بند کر دی جائے جہاں بڑی تعداد میں انسانی اجتماع ہوتا ہے۔ شاپنگ مال ‘ شادی ہال‘ جم‘ سنوکر کلب‘ سینما ہاﺅس‘ دفاتر‘ کارخانے اور مذہبی اجتماعات پر پابندی عائد کی گئی۔ شہروں کا لاک ڈاﺅن کیا گیا‘ ٹرانسپورٹ بند کی گئی اور لوگوں کے بلا ضرورت گھروں سے نکلنے پر بندش لگی تو ووہان میں کورونا وائرس قابو میں آیا۔ پاکستان اور دنیا کے دیگر ممالک لاک ڈاﺅن کو علاج کے متبادل ایک حفاظتی تدبیر کے طور پر استعمال کرکے اپنے شہریوں کو اس سفاک وبا سے بچانے کا چارہ کر رہے ہیں۔ یقینا اس تدبیر کی وجہ سے بہت سی انسانی جانیں بچا لی گئی ہیں لیکن اس سے ساری دنیا میں تمام قسم کے کاروبار متاثر ہوئے ہیں۔ نجکاری کے بعد ایک طرف لیبر کورٹس کا دائرہ کار بتدریج کم کیا گیا تو دوسری طرف مزدور کو کام اور اوقات کار کے حوالے سے کڑی شرائط ماننے پر مجبور ہونا پڑا۔ عالمی سرمایہ داری نظام نے پوری دنیا میں روزانہ دیہاڑی کی مزدوری کو رواج دیا۔ گزشتہ دو عشروں کے دوران پھلنے پھولنے والے اکثر کاروباری شعبوں میں اکثریتی کارکن دیہاڑی دار ہیں۔ کورونا کی وبا پھیلنے لگی تو کاروبار بند کرنا پڑے۔ اس بندش کا اثر پاکستان کے سوا کروڑ دیہاڑی داروں اور کروڑوں نجی اداروں کے ملازمین پر منفی صورت میں پڑا ہے۔ نوکریوں سے جواب‘ معاوضوں میں کٹوتی اور اوقات کار میں اضافہ نے پہلے سے موجود مشکلات کو بڑھا دیا ہے۔ کارخانوں میں برآمدی آرڈر تکمیل کے منتظر ہیں۔ ملک میں بیرونی سرمایہ کاری رک چکی ہے۔ سٹاک مارکیٹس مسلسل مندی کا شکار ہیں۔ روز اطلاع ملتی ہے کہ کئی پوائنٹ نیچے گرنے سے سرمایہ کاروں کے اربوں روپے ڈوب گئے۔ بڑے پیمانے پر مینو فیکچرنگ کی 60فیصد فیکٹریاں بند پڑی ہیں باقی 40فیصد میں جزوی کام ہو رہا ہے۔ آٹو‘ ٹیکسٹائل‘ انجینئرنگ ‘ سیمنٹ اور کیمیکلز کے یونٹ بند پڑے ہیں۔ اس کا نقصان یہ ہو رہا ہے کہ آئی ایم ایف کے ساتھ بیل آﺅٹ پیکیج کے دوران پاکستان نے ٹیکس جمع کرنے کے جو اہداف مقرر کئے تھے موجودہ حالات میں ان کا حصول ناممکن دکھائی دیتا ہے۔ وزیر اعظم عمران خان نے گزشتہ ہفتے اقوام متحدہ‘ آئی ایم ایف‘ عالمی بنک اور بڑی معیشتوں والے ممالک سے اپیل کی تھی کہ وہ مقروض اور پسماندہ ممالک کے مالی مسائل کو حل کرنے میں مدد دیں۔ وزیر اعظم نے قرضوں میں معافی اور رعایت کی طرف بھی توجہ دلائی تھی۔ ایک اندازے کے مطابق حکومت نے اب تک عوام کو ضروری امداد کی فراہمی کے لئے 8ارب ڈالر کا امدادی پیکیج فراہم کیا ہے جبکہ معیشت کو مجموعی طور پر 5ارب ڈالر کا خسارہ ہو چکا ہے۔ آئی ایم ایف کی جانب سے فراہم کردہ نیا قرضہ رکن ممالک کو ہنگامی حالات میں ادائیگیوں کا توازن درست کرنے میں مدد دینے والی سکیم ہے۔ اس سکیم سے حاصل رقم سے تمام ضروریات تو پوری نہیں ہو سکیں گی تاہم صحت کے شعبے پر مختص بجٹ سے زاید اخراجات سے نمٹنے میں ضرور مدد مل سکے گی۔ دوسری طرف شرح سود میں کمی مقامی سرمایہ کاروں کو موقع دے گی کہ وہ بینکوں سے کم شرح سود پر فنڈز حاصل کر کے بحرانی دور میں اپنے کاروبار کو تحفظ فراہم کر سکیں۔ یقینا بھوک اور کورونا سے محفوظ رہنے کے درمیان ایک بہت کم گنجائش کا مقابلہ ہے جس میں کامیابی کے لئے وسائل کے استعمال کو دانشمندی سے بروئے کار لانا ضروری ہے۔
٭٭٭

LEAVE A REPLY

Please enter your comment!
Please enter your name here