عامر بیگ
پچھلے دو سالوں میں سوشل پرنٹ اور الیکٹرانک میڈیا پر صحیح معنوں میں اگر کسی وزیر کی درگت بنائی گئی مذاق اڑایا گیا تو وہ سائنس و ٹیکنالوجی کے وزیر موصوف فواد چوہدری صاحب ہیں کبھی چاند دیکھنے پر تو کبھی ہیلی کاپٹر کے کرایہ پر تو کبھی اینکر کو تھپڑ رسید کرنے پرمیڈیا نے ان کا بھڑ کس نکال کے رکھ دیا۔ کلین شیو پر چبی گال اور چہرے پر کامیڈین ننھا جیسی ہنسی ڈالے اس بندے کے ماتھے پر ایک بھی بل نہیں پڑا وہ اپنی لگن میں ایسا مست کہ جو ٹارگٹ اس کے وزیر اعظم نے دیئے ۔اس نے نا صرف اچیو کئے بلکہ اس سے بھی کئی گنا بہتر کارکردگی کا مظاہرہ کر کے دکھا دیا ،جی ہاں چھبیس فروری کو جب کورونا پاکستان میں آیا تو پاکستان میں اس بارے نہ تو کسی کو کوئی اویئرنیس تھی اور نہ ہی کوئی پروٹیکٹیو گیئر یہ بندہ مارچ دو ہزار بیس میں کیلیفورنیا کے سائنسی میلے میں شرکت کر کے لوٹا تو اس نے اس کام کرنے کی ٹھانی۔ آج پاکستان پی پی ای پرسنل پروٹیکٹیو ایکوائپمنٹ کے زمرے میں نہ صرف خود کفیل ہو گیا ہے بلکہ دوسرے ملکوں کو ایکسپورٹ کرنے کے قابل بھی ہو چکا ہے صرف ڈیڑھ مہینے میں یہ انقلاب بھی آچکا ہے کہ پاکستان میں نہ صرف سستے وینٹیلیٹرز بنیں گے بلکہ تمام میڈیکل سائینس سے ریلیٹڈ چھوٹے ایکوایپمنٹس بھی بنا ئی جائیں گے۔ ملکی ضروریات پوری کرنے کے ساتھ ساتھ انکو ایکسپورٹ کر کے قیمتی زرمبادلہ بھی کمایا جائے گا، اس سے پہلے وہ وزارت سائینس و ٹیکنالوجی کی مدد سے آنے والے پانچ سالوں کے لیے قمری کیلنڈر کا اجراءبھی کر چکے ہیں اور ابھی تک وہ اس بارے میں سچے ثابت ہوئے ہیں ۔وہ حفظان صحت کے اصولوں کے مطابق سستا پانی جس کی قیمت ایک روپیہ پر بوتل ہے ،انٹروڈیوس کروا چکے ہیں جو کہ وزیر اعظم آفس اور دوسرے دفاتر میں استعمال بھی کیا جاتا ہے پولوشن اور شور کو کم کرنے کی لیے رکشہ اور چنگچی کو بھی بیٹری پر چلانے کے لیے منصوبے بنائے جا رہے ہیں اگر پاکستان نے ترقی کرنی ہے تو پاکستان کو سائنس و ٹیکنالوجی میں میں آگے جانا ہو گا اور اس فیلڈ کو ترقی دینی ہو گی جس سے عام آدمی کا واسطہ رہتا ہے اس سلسلے میں سٹیم ( سائینس ٹیکنالوجی انجنیئرنگ اور میتھ) سکول کا کونسیپٹ دیا جا رہا ہے ہر ڈویژن میں سے دس سکول منتخب کر کے انکے طالب علموں کو اس طریقے سے پڑھائی کروائی جائے کہ وہ سائینس جینیئس بن جائیں ۔انرویشن لیگ میں ایسے تمام نوجوانوں کو مدعو کیا جا رہا ہے جن کے پاس ٹیکنالوجی کا کوئی بھی آئیڈیا ہے انہیں سو فیصد فنانس کیا جائے گا ۔یہ تمام سوچیں ایک ایسے بندے میں کہاں سے آگئیں جن کو آلو اور پتا نہیں کن کن ناموں سے پکارا گیا۔ آئیے اس پاکستانی نیوٹن کے تعلیمی و سیاسی سفر کا جائزہ لیتے ہیں ،گورنمنٹ کالج یونیورسٹی سے گریجوایٹ انگلینڈ سے قانون کی تعلیم لیے جہلم کے پرانے قانونی و سیاسی خانوادے سے تعلق دو ہزار دو میں پی پی جہلم سے آزاد الیکشن میں162 ووٹ لیے ۔جنوری 2012 میں مشرف لیگ سے استعفیٰ دے کر پاکستان پیپلز پارٹی جوائن کی۔ گیلانی کی کیبنیٹ میں معاون خصوصی برائے سیاسی معاملات کے ساتھ ساتھ بلاول کے اتالیق بھی مقرر ہو ئے، راجہ پرویز اشرف کی کابینہ میں معاون خصوصی رہے۔ دو ہزار تیرہ کے عام انتخاب میں اس دفعہ ق لیگ کی طرف سے این اے تریسٹھ اور پی پی چوبیس سے دونوں انتخابات میں شکست ہوئی ۔دو ہزار سولہ میں پی ٹی آئی جوائن کر کے اگست دو ہزار سولہ میں ضمنی انتخابات میں این اے تریسٹھ سے ایک دفعہ پھر ہارے ۔دو ہزار سولہ میں پی ٹی آئی کا ترجمان اور دو ہزار اٹھارہ میں پی ٹی آئی کا سیکریٹری اطلاعات مقرر کیا گیا ۔دو ہزار اٹھارہ کے عام انتخابات میں آخر کار قسمت نے یاوری کی اور پی ٹی آئی کی طرف سے این اے سڑسٹھ اور پی پی ستائیس سے کامیاب ہوا اورعمران خان کی حکومت میں وزیر اطلاعات بنے ۔اتنے دھکے کھانے اور جگہ جگہ کا پانی پی کر اس پاکستانی نیوٹن نے ہمت نہیں ہاری۔ تجربات کی چکی میں پس پس اب سائینس و ٹیکنالوجی میں اتنا کام کر گئے کہ ان کو نیوٹن بنا بنا کر انکی نقلیں اتارنے والے بھی اب ان پر ناز کریں گے۔
٭٭٭