سردار محمد نصراللہ
ایک ہفتہ بہاولنگر میں گزارنے کے بعد واپس اپنے حجُرے میں اس عالمی وبا کورونا سے بچنے کیلئے قرنطینہ کر لیا ہے، بہاولنگر میں میری بڑی ہمشیرہ یاسمین ظہور لالیکا رہتی ہیں ،آپا رہتی تو شہر میں ہیں لیکن سارا ماحول ایک مڈل کلاس وڈیرہ شاہی کا ہے کہ جب وہ اپنے گاﺅں ہارون آباد لے کر گئیں بڑا اچھا وقت گزرا ،اپنی بھانجی عائشہ عمر جوئیہ اور ان کے دو صاحبزادوں عبدالرحمن جوئیہ اور محمد علی جوئیہ کےساتھ سلمان احمد لالیکا جس نے اپنے مرحوم والد ظہور احمد لالیکا کی گدی اور ساری زمینداری سنبھالی ہوئی ہے گندم کی کٹائی اور ٹھیکیداروں سے ٹھیکے اور پنچایتی فیصلوں میں اُلجھے ہوئے تھے لہٰذا زیادہ وقت نہ دے سکے، خیر میرا مقصد ہمشیرہ کےساتھ وقت گزارنا تھا۔ واپسی پر عارف والا شہر کے وسط میں تھوڑی دیر کیلئے رُکا کہ اپنے دوست بروکلین نیویارک کے معروف اٹارنی مجاہد علی خان کو غائبانہ سلام پیش کر کے آگے چلوِں، ان کی جانب سے تو مجھے مکمل دعوت نامہ تھا کہ ان کے دولت خانہ پر رُک کر جاﺅں لیکن جب میرا دوست موجود نہیں ہزار مہمان داری نبھانے والے موجود ہوں وہ مزا کیا جو ان کی موجودگی میں ہونا تھا پھر ایک اور شہر اوکاڑہ میں سے گزرتے ہوئے نابینہ اسکول کی عمارت کو سلام کرنا بھی میرے فرض منصبی میں شامل ہے کہ میرے اتنے بڑے دوست جو دوست کم اور بھائی زیادہ ہیں شاہد نواز چغتائی کو اتنا بڑا آدمی بنا دیا ہے کہ دبئی میں اس کی شخصیت بُرج پلازہ سے بڑی ہے، لاہور پہنچنے سے پہلے پتو کی باﺅنڈری میں ایک پڑاﺅ ڈالا تاکہ وہاں پر رُک کر نرسری سے کچھ پودے لے لوں۔
پھر خیر سے لاہور پہنچے تو اپنے والد صاحب مرحوم سردار ظفر اللہ کا وہ جملہ یاد آیا کہ وہ جب بھی باہر سے لوٹتے تو اکثر یہ کہتے چھجو کا چبارا نہ بلغ نہ بخارا، کہ جو مزا اپنے جھونپڑی میں ہے وہ بڑے ایوانوں میں کہاں!
خیر لاہور میں اپنے آپ کو قرنطینہ کر لیا ہے کہ وباءکا اور اموات کا درجہ حرارت بڑھا ہوا ہے ،مرکز اور صوبائی حکومتوں میں لاک ڈاﺅن کے حوالے سے ایک طویل جنگ چھڑی ہوئی ہے ،خاص طور پر مرکزی حکومت اور سندھ کی صوبائی حکومت بظاہر دیکھنے میں تو عمران خان کی حکومت بہت برُی ہے لیکن اصل میں اس کا محل وقوع سارا کا سارا 26 مربع میل پر محیط ہے اور اس کے مقابلے میں پیپلزپارٹی سندھ کی حکومت کراچی سے صادق آباد تک پھیلی ہوئی ہے اور وہاں کا چیف ایگزیکٹو ملک کے وزیراعظم سے بڑا لگتا ہے اور یہ سب کچھ اٹھارہویں ترمیم کی وجہ سے ہوا ہے اور یہ سب کچھ پیپلزپارٹی کے دور حکومت اور زرداری کی صدارت میں ہوا جب وہ ملک کا صدر تھا یہ کتنا بڑا مذاق ہے مملکت پاکستان کےساتھ کہ ملک کو لوٹنے والا خائن آصف زرداری کو ملک کا صدر بنا دیا گیا اور اس جرم کی ساری ذمہ داری ہماری اسٹیبلشمنٹ پر جاتی ہے جو ہمیں یہ بتاتی رہی کہ ملک کی سلامتی کا سب سے بڑا دشمن زرداری ہے پھر اس کو صدر مملکت بنا دیا گیا اور اس نے جنرل کیانی جیسے جنرل کےساتھ مل کر ہماری مرکزی حکومت کو کمزور کرنے کیلئے اٹھارہویں ترمیم کروا کر مرکز کو 26 میل کے علاقہ پر مقید کر کے چاروں صوبوں کو الگ الگ ملک کا درجہ دےدیا ہے، اس کورونا کی وباءمیں ہمیں ایک چھی بات سمجھ آتی ہے کہ اس اٹھارہویں ترمیم کو ختم کرنے کی اشد ضرورت ہے ہمیں صوبائی خود مختاری کے نام پر بے وقوف بنایا جا رہا ہے ۔اس سے پہلے کہ وہ قوتیں صوبائی خود مختاری کے نام پر ہمارے ملک کی سلامتی کو تہہ و بالا کرنے کی کوشش میں مگن ہیں، آئیے اس کو توڑا جائے کہ ہمیں اٹھارہویں ترمیم کو ختم کرنے سے ملک کی سلامتی کو نقصان پہنچے گا، میں سمجھتا ہوں کہ ہماری سلامتی اس میں مضمر ہے کہ فوری طور پر اسمبلی کا اجلاس بلا کر اس ترمیم کو ختم کرنے کیلئے مرکزی حکومت کی رٹ قائم کرنے کی ترمیم پیش کی جائے اور اگر اس کیلئے حکومت کو ڈنڈا بھی چلانا پڑے تو اس سے گریز نہ کیا جائے۔ مرکزی حکومت کی رٹ اور سلامتی ضروری ہے اور اس نقطہ کو ہماری فوجی اسٹیبلشمنٹ کو بھی سمجھنا بڑا ضروری ہے ورنہ بہت دیر ہو جائے گی اور ہر صوبہ مجیب الرحمان پیدا کرنا شروع کر دے گا بلکہ سندھ میں بلاول ،زرداری اس کا باپ آصف زرداری اور اس کے حواری اس کھیل کو شروع کر چکے ہیں جس کو روکنا بڑا ضروری ہے۔
آج کل چودھری شجاعت اور پنجاب اسمبلی کے اسپیکر پرویز الٰہی نے نیب کےخلاف عدالت میں چلے گئے ہیں ان کا مو¿قف یہ ہے کہ یہ کیس 25 سال پرانا ہے اور ختم ہو چکا ہے لیکن حکومت سیاسی انتقام کے طور پر استعمال ہو رہی ہے اور وہ بالکل صاف ستھرے ہیں اور شہباز شریف کی طرح انہوں نے اور ان کے خاندان نے ایک دھیلے کی بھی کرپشن نہیں کی ۔اس غریب شہر کو پاکستان کی سیاست کو سمجھنے اور دیکھتے ہوئے تقریباً 50 سال ہو چکے ہیں تجربہ ہے ہر ذی شعور شہری جو ملک کی سیاست پر نظر رکھتاہے چودھری شجاعت اور پرویز الٰہی کے والدین کے بیک گراﺅنڈ کو بڑی اچھی طرح جانتے ہیں۔میں تو آج تک یہ سمجھنے سے قاصر ہوں کہ ایک سپاہی، ایک ٹکٹ بلیکراور ایک خرادیہ کس فارمولے کے تحت کھربوں کے مالک بنے، ماریول یوزوں نے خوب کہا!
“Beyond Every Great fortune their is a crime” اس فارمولے کو استعمال کرتے ہوئے لوگ کھرب پتی بنے ہیں اور ان کی عمارت میں ہمارے ریگولیٹرز خاص طور پر فوج کا بڑا ہاتھ ہے کہ انہوں نے چھوٹے چھوٹے فائدے کیلئے ان کو بڑا سے بڑا چور ڈاکو اور لٹیرا بنایا اور اب یہ کھیل کب تک جاری رہے گا مجھے نہیں لگتا کہ یہ مسئلہ عمران خان صاحب سے بھی حل ہوگا کہ ابھی تک عمران خان سپریم کورٹ کی جانب سے عائد نوازشریف اور مریم صفدر سے جرمانے کے پیسے نہیں نکلوا سکے تو چوہدری صاحب جو Beyond his means رہ رہے ہیں کب ان مقدمات کو صحیح سمت میں لا کر حل کرینگے، اصل میں اس ملک کو ان تین خاندانوں نے ہی نہیں کھایا بلکہ سیاسی لیپا پوتی سے جڑی ایک ایک اینٹ کو تو اس کماش کے لوگ نکلیں گے، ملک برباد ہو چکا ہے میں جہانگیر لودھی کو بتا رہا تھا کہ ابھی دو نسلیں اور چاہئیں ہمیں ان غلاموں کی غلامی سے نکلنے کیلئے ابھی تو صرف پانچ نسلیں ہوئی ہیں، 1947ءسے لے کر آج تک۔
آخر میں اس قرنطینہ میں صرف ٹاک شوز انجوائے کر رہا ہوں کہ اللہ ایسی چیخ و پکار، ادھر الزام، اُدھر الزام بس اور کچھ نہیں، ہر ٹی وی ٹاک شو نے عمران خان کو ایسا گھیرا ہوا ہے کہ اکثر سوچتا ہوں کہ یہ سب لوگ نوازشریف اور زرداری کے سامنے کبھی زبان کھولنے کی جرا¿ت نہیں کرتے تھے ۔اللہ کی شان ہے یہ سیاسی میدان ہے میرے ملک کا۔
٭٭٭