سید کاظم رضوی
تمام قارئین کرام کو سید کاظم رضا کا سلام پہنچے مجھے اندازہ ہے مضمون خشک بھی ہے اور بے ربط بھی لیکن باتیں کام کی ہیں، جلد انشاءاللہ آپکو مضامین میں ربط اور تسلسل ملے گا، بسا اوقات جان بوجھ کر ایسا کیا جاتا ہے تاکہ صرف سنجیدہ اور علم دوست حضرات ہی مطالعہ کریں باقی لوگ اپنا راستہ لیں خیر۔۔
ستاروں کی تمام باریکیوں میں جاکر اور زاویہ¿ نظر کے منسوبات کو مدنظر رکھ کر آپ بہت سی ایسی باتوں اور خواص کا کھوج لگانے میں کامیاب ہوجاتے ہیں جو آگے منزل کے حصول کو آسان بناتے ہیں ،اللہ نے چاند ، سورج اور دیگر سیاروں و ستاروں کو بنایا ان میں خواص پیدا کیے اور انسان کیلئے رزق کا انتظام فرمایا لیکن جب وہی انسان اس کرہ ارض پر نافرمانی اور بگاڑ کا باعث بنا، اسکے نتیجے میں تباہی و بربادی اور بھوک و پیاس سے واسطہ پڑا تو اس کو عقل استعمال کرکے اتنا شعور دے دیا کہ من و سلویٰ کی بندش کے بعد اپنے اناج اور جینے کی ضروریات کا انتظام کرے، ہر چند کہ قدرت اللہ کی ہے لیکن اسکے مادوں کے خواص سے فائدہ لینا اب بشر کا کام ہے، بھوک و افلاس سے مرنے سے بہتر ہے کہ وہ ایسی کھادیں تیار کرے جو اسکی فصل کو زیادہ بار آور بنادیں اور ایسے وقتوں و موسموں کا انتخاب کرے کہ اسکی غذا اور محنت ضائع نہ ہو ،ہم سے قبل بھی قومیں اس پیچیدہ حساب میں مہارت رکھتی تھیں ،اس کی دلیل اہرام مصر کی ممی پر پڑنے والی دھوپ جو سال میں مخصوص وقت پر ہی آتی ،باقی پورا سال روشنی نہیں آتی امریکہ نے اسی ذاویاتی علم کا فائدہ ایک ایسا طیارہ بناکر اٹھایا جو ریڈار پر نظر نہیں آتا تھا ،اس کام کیلئے اس وقت سپر کمپیوٹر موجود نہ تھا تو ایسے نفسیاتی مریضوں جن کو ہم پاگل کہتے ہیں لیکن انکا دماغ کچھ چیزوں میں تیز ہوتا ہے جیسے ریاضی ان لوگوں نے فارمولوں کو حل کیا ہر چند کہ جدید طیارے اب جدید ترین کمپیوٹر پر ڈیزائن کیئے جاتے ہیں لیکن ان کی بنیاد اور آئیڈیا آنے کی جڑیں کہیں اور سے ملتی ہیں۔اب سے تیس برس قبل جب نہ کیمرہ عام تھا اور دور طالب علمی میں میوزیم جاکر اور آثار قدیمہ جاکر وہاں کی علامات اور اشاروں کو اکٹھا کرنا آسان کام نہ تھا جب سے یہ ریسرچ جاری ہے جو شوق ہے کاپی اور سادہ قلم سے نقوش اور حروف کو اتار کر لے آتا اور مطالعہ کے کمرے میں سر دھنتا گھر والے سمجھتے شائد بچہ دماغی پاگل پن کا شکار ہے اور اب اللہ ہی کرم فرمائے۔
آج کے دور میں تحقیق آسان ہوگئی ہے اور اب میوزیم میں جانے کی بھی ضرورت نہیں بلکہ آن لائن آپ کو وہ تحاریر اور تصاویر مل جائینگی جن پر آپ دماغ سوزی کرکے حقیقت کا کھوج لگائیں یہ جو گوری چمڑی ہے اس کا دماغ خراب نہیں جو مٹی کے تو دے (اسٹوپا ) کا مطالعہ کرے اور پاکستان کے موہن جوداڑو چلا آئے اور وہاں ملنے والے بیجوں اور جلی ہوئی گندم کا مطالعہ کرے لیکن یہ ان نشانیوں کو سمجھ رہا ہے جو اس کے پیچھے ایک خاموش داستان لیے پڑی ہیں ،ہمارے بہت سے محقق مار ڈالے گئے ،اگر آپ یہ سمجھتے ہیں کہ مسلمان غافل ہیں اور سکون کی نیند سو رہے ہیں تو عام طور پر یہ تاثر شائد درست ہو لیکن میں کچھ ایسے مضبوط و مستند حوالے آپکو دونگا جس سے یقین آجائیگا کہ وہ بھی در پردہ کافی کام کررہے ہیں لیکن اگر منظر عام پر آئیں تو ان کو مار ڈالا جائیگا اور اس کام کیلئے کسی باہر کے آدمی کی ضرورت نہیں ہے بلکہ گھر میں موجود ایسے مہرے ہیں جو اس کام کو بخوبی انجام دینے کیلئے مل جاتے ہیں۔ مقصد صرف ایک خاص مذہب کے لوگوں کو علوم سے دور رکھنا ہے ،میری براہ راست تو کسی سے ملاقات نہ ہوئی البتہ کچھ افراد فون پر بڑی مشکل سے مل سکے ،وہ بھی نام و شناخت صیغہ راز میں رکھنے کی شرط پر بات کرنے پر راضی ہوئے۔ اب علم دوستی نہ رہی اور نہ ہی قدر جس طرح حکمت کو سانڈے کا تیل کھا گیا ،اسی طرح علوم فلکیات و مخفی کو درگاہوں کے چرسی مجاور اور انڈے سے سوئے نکالنے والے شعبدے باز کھا گئے اور اس کی بدنامی کا سبب بنے اور بن رہے ہیں ،بڑی لمبی داستان ہے کہاں تک سناﺅں۔۔۔
لیکن وہی بات جب نقل ہے تو اصل بھی کہیں تو ہے،ستاروں اور نظام شمسی کے فلکی اجرام پر لاتعداد چھوٹے بڑے ٹکڑے بھی تیرتے ہیں جو شہابئیے کہلاتے ہیں اور اکثر زمین یا چاند کے مدار میں آجائیں تو ایک تیز روشنی کے ساتھ زمین و سمندر میں گرتے ہیں ایسا اُس وقت ہی ممکن ہے جب وہ زمین کے حفاظتی غلاف کو توڑ کر اس میں داخل ہوں۔ کشش ثقل اور ان شہابیوں کی رفتار وہ عوامل ہیں جب کرہ ارض میں موجود آکسیجن اور گیسوں کی رگڑ سے ان مدار میں داخل ہوتے ہی آگ لگ جاتی ہے ۔یہ قیمتی ٹکڑے لوگ لمبی رقوم دے کر حاصل کرتے ہیں اور پتھروں کے شوقین ان کے حصول کے پیچھے رہتے ہیں۔ کبھی وقتاً فوقتاً مدار ستارے بھی آسمانوں پر ظاہر ہوتے ہیں لیکن ان کا تعلق نظام شمسی سے نہیں ہوتا ،ان کو اکثر لوگ نحوست کا سبب خیال کرتے ہیں جس کی تصدیق یا تردید نہیں کی جاسکتی ،اس ضمن میں ابھی کام ہونا باقی ہے۔
بات کرتے ہیں نظام شمسی کے روشن ستارے سورج کی، اس میں موجود عددوں کو یاد رکھئیے گا جو آگے علم آل حروف و اعداد کے حوالے سے کام آئیں گے۔
سورج بظاہر ۳۲ دقیقہ بڑا ہے یعنی ایک درجے کے اگر ساٹھ حصے کیئے جائیں تو ان میں سے ۳۲ حصے سورج کی ٹکیہ کی موٹائی ہوگی لیکن حقیقت میں یہ کتنا بڑا ہے اس کا اندازہ اس بات سے ہوسکتا ہے کہ نظام شمسی کے وزن کے اگر ہزار حصے کیئے جائیں تو ان میں سے صرف ۱۴ حصے سورج کے علاوہ تمام نظام شمسی کے ہونگے باقی ۹۸۶ حصے اکیلے سورج کے ہونگے !!۔
سورج کا قطر 52800 میل ہے اور یہ زمین کے قطر کا 901 گنا ہے۔اسکا حجم زمین کے حجم کا تیرہ لاکھ گنا ہے۔اس کا وزن زمین کے وزن کا تین لاکھ گنا ہے۔ اس کی کشش ثقل زمین کا ۲۸ گنا ہے سورج ہماری زمین سے نو کروڑ ۲۹ لاکھ پچپن ہزار آٹھ سو سات میل دور ہے اس فاصلے کو آسٹرونومیکل یونٹ (AU)کہتے ہیں۔
آخری بات ،میرے پاس اتنا وقت نہیں ہوتا ،اس لیئے کام خود کریں اصولوں کیلئے میسج پیغام یا ای میل آپ مجیب لودھی صاحب سے حاصل کرسکتے ہیں، میں بارہا بتا چکا ہوں میں عامل یا نجومی یا کوئی پیر ویر نہیں ہوں ،بس ایک ادنیٰ سا طالبعلم ہوں اور سیکھ رہا ہوں ، دو اور دو چار جانتا بھی ہوں اور ثابت بھی کرسکتا ہوں ،اللہ آپکو کامیاب فرمائے۔ آمین
والسلام
٭٭٭