بدلتے ہوئے حالات کا تقاضہ!!!

0
388
جاوید رانا

جاوید رانا، بیوروچیفشکاگو

قارئین کرام! جس وقت یہ کالم آپ کے زیر مطالعہ ہوگا، عید الفطر کی خوشیوں اور مبارک مہینہ رمضان کریم کی تکمیل کے لمحات ہونگے، میری اور ادارہ ”پاکستان نیوز“کی جانب سے عید الفطر کی دلی مبارکباد اور اللہ رب العزت سے دعا کہ وہ تمام مومنین و مومنات کی ماہ رمضان المبارک کی عبادتوں، ریاضتوں کو شرف قبولیت عطاءفرمائے اور تمام عالم انسانیت کو کرونا کی موذی وباءسے نجات عطاءفرمائے۔ آمین۔
ہم نے گزشتہ ہفتے اپنے کالم میں اسلامک فاﺅنڈیشن ولا پارک کی کرونا کی وباءنیز ماہ مبارک کے حوالے سے ان کی مثالی انسانی خدمات اور دیگر فلاحی تنظیموں کے کاموں پر اظہار خیال کیا۔ الحمد اللہ قارئین کی بہت بڑی تعداد نے کالم کی تعریف کرتے ہوئے اپنا رد عمل ظاہر کیا اور ان فلاحی تنظیموں کی خدمات کو سراہا ہے تاہم بعض احباب خصوصاً مسیحاﺅں کی ریاستی تنظیم نے اپنی خدمات کے حوالے سے مو¿قف کا اظہار کیا ہے ہم ہر نیک اقدام کی قدر کرتے ہیں اور اس کی تحسین بھی۔ PPS کے Covid-19 کے دوران فرائض و فلاحی اقدامات کا ہم احترام کرتے ہیں۔ تفصیلات کے حصول و تحقیق کے بعد انشاءاللہ اس حوالے سے بھی اظہار خیال کرینگے۔
ماہ رمضان اور عید الفطر کی مبارک و مسعود ساعتیں بھی کرونا کے پھیلاﺅ اور ہلاکت خیزیوں کے باعث امت مسلمہ کیلئے آزمائش کا سبب بنی ہیں لیکن اُمہ نے دنیا بھر میں بشمول امریکہ وپاکستان لاک ڈاﺅن و احتیاطی تدابیر کی پابندیوں کے باوجود ماہ مبارک کے فرائض و عبادات کی ادائیگی بخوبی انجام دی۔ عید کی مسرتوں کے اہتمام کیلئے کاروباری سرگرمیوں کے تعطل کے باعث لوگوں کو دُشواریوں کا سامنا رہا۔ پاکستان میں اگرچہ حکومت نے احتیاط و پابندیوں کی پاسداری پر مشروط لائحہ عمل کےساتھ لاک ڈاﺅن میں نرمی اور کاروبار محدود پیمانے پر کھولنے کی اجازت دی لیکن عوام الناس نے اس سہولت کو مادر پدر آزادی سے استعمال کر کے ساری احتیاطوں اور لائحہ عمل کو بالائے طاق رکھ دیا، نتیجہ یہ ہو اکہ وباءسے متاثرین اور ہلاکتوں میں بے انتہاءاضافہ ہو گیا، اُدھر وفاق اور صوبہ سندھ میں سیاسی بُعد کے باعث معاملہ سپریم کورٹ کے از خود نوٹس تک جا پہنچا۔ حیرت انگیز طور پر عدالت عظمیٰ نے عید کی آمد اور شہریوں کو عید کی خریداریوں اور تیاریوں کے تناظر میں سارا لاک ڈاﺅن کھولنے اور پابندیاں ختم کرنے کا فیصلہ صادر کر دیا۔ محترم چیف جسٹس نے سوال اٹھا دیا کہ وباءکہاں ہے؟ عدلیہ کے سب سے بڑے منصف کا یہ سوال اپنی جگہ ایک حیرت کا سوال ہے دنیا بھر میں اس وائرس نے جو تباہی برپا کی ہے جس طرح دنیا میں لاکھوں کی تعداد میں بندگان خدا کی ہلاکتیں ہوئی ہیں، ملینز لوگ متاثر ہوئے ہیں اس کا علم تو ایک بچے کو بخوبی ہے پاکستان کی سب سے بڑی عدالت کے سربراہ کے علم میں اس حقیقت کا پہلو کیوں نہیں تھا، شہریوں کو عید کے حوالے اور شخصی آزادی کے حق کے تحت یہ فیصلہ کیا ملک میں وباءسےءمتاثرین اور خدانخواستہ مرنے والوں کی تعداد میں اضافے کا سبب نہیں بنے گا۔ اس کا ذمہ دار کون ہوگا؟
کرونا کی آڑ میں سیاسی کھیل تماشے پاکستان میں ہی نہیں دنیا بھر میں ہو رہے ہیں۔ امریکہ سے پاکستان تک حالات کو نہ صرف اندرونی سیاسی برتری کیلئے استعمال کیا جا رہا ہے بلکہ عالمی صورتحال میں سیاسی، معاشی برتری میں تبدیلیوں و تنازعات کے مظاہر سامنے آرہے ہیں۔
پاکستان میں حکومت اور اپوزیشن کرونا کے مسئلے پر تو متحارب ہیں ہی، ساتھ ہی ا یک دوسرے کو نیچا دکھانے کیلئے سیاسی دنگل بھی جاری ہے، کپتان ان کے وزراءاور سیاسی رہنما اپوزیشن کےخلاف اپنے مخصوص بیانئے کرپشن میں سارا زور لگا رہے ہیں، نیب نے ن لیگ، ق لیگ (حکومتی حلیف) اور پیپلزپارٹی کےخلاف نوٹسز پیشیوں کا سلسلہ جاری رکھا ہے اور حکومتی ترجمان نیب کے ترجمان بن کر اپوزیشن کی چارج شیٹ میڈیا پر مشتہر کر رہے ہیں اپوزیشن مسلسل حکومت پر کیچر اُثھال رہی ہے۔ ایسا لگتا ہے کہ پاکستان کی سیاسی و حکومتی اشرافیہ کو اس موذی وباءکی کوئی فکر نہیں، وہ اپنے مفاد کو اور ایک دوسرے کو نیچا دکھانے کو پہلی ترجیح دے رہے ہیں۔ عوام کا بھی رویہ اس صورتحال میں مثبت نہیں، نہ وہ احتیاط کر رہے ہیں اور نہ اس وباءسے خوفزدہ نظر آتے ہیں۔ طبی ماہرین، میڈیا اور متعلقہ حلقوں کے سمجھانے کے باوجود اپنی جانیں ہتھیلی پر رکھے ہوئے ہیں۔ ملک کے بڑے شہروں سمیت ہر جگہ بازاروں، دوکانوں پر بغیر احتیاط مجمع، شہادت علیؑ کے جلوسوں میں ہزاروں افراد کی بغیر کسی احتیاطی تدابیر کے شرکت نہ ہی لوگوں کے حق میں نظر آتی ہے۔ اور نہ ی ملک کیلئے بہتری کی علامت ہے۔ اسے بے خبری کہیں یا بے حسی ہر دو صورتیں خطرناک ہیں۔
کرونا نے جو حالات پیدا کئے ہیں اس تناظر میں اوپر کی سطور میں ہم نے عالمی حالات و واقعات، برتری، معیشت و سیاست میں تبدیلی کا ذکر کیا ہے۔ محض پچھلے ہفتہ کی خبروں پر نظر ڈالیں ٹرمپ کا چین سے تعلقات ختم کرنے کا اعلان اور چین کا جواباً رد عمل اور آپس کے تعلقات کو برقرار رکھنے کا مو¿قف چین کے اسرائیل سے تجارتی و دفاعی معاہدوں کی پیش رفت اور امریکی سیکرٹری اسٹیٹ پومپیو کی اسرائیلی حکومت سے ملاقات، امریکی انتظامیہ کا شدید رد عمل، بھارت کا افغان امن کے قیام میں کردار ادا کرنے کیلئے طالبان قیادت سے رابطہ اور طالبان ترجمان کا بھارت کو کرارا جواب اور بھارت کو افغانستان دشمن قرار دینا اس امر کی نشاندہی ہے کہ طاقت اور برتری کے محور تبدیل ہو رہے ہیں۔ دوسری جانب امریکہ اور سعودی عرب میں بھی تعلقات کی سرد مہری، تیل کی قیمتوں اور ترسیل میں کمی ان دونوں ممالک کی معیشت میں تنزلی کا باعث بن رہی ہے۔ امریکہ میں 3 کروڑ افراد کا بیروزگار ہونا اور حکومت پر کھربوں ڈالر کا بوجھ امریکہ کی عالمی حیثیت کو متاثر کر رہا ہے جبکہ چین معاشی طور پر مزید استحکام حاصل کر رہا ہے۔ شنگھائی تعاون تنظیم کے پلیٹ فارم سے روس، چین، پاکستان، وسطی ایشیائی ممالک، ایران وغیرہ کا اتحاد طاقت کے سرچشموں میں تبدیلی کی نشاندہی کر رہا ہے۔ سی پیک کے توسط سے دنیا کے 72 ممالک سے چینی معیشت کی ترقی کےساتھ پاکستانی معیشت کی بہتری بھی نظر آرہی ہے بھارت اپنی ہندو گردی کے ہاتھوں اور مقبوضہ کشمیر میں مظلوم عوام پر مظالم کے ہاتھوں دنیا بھر میں ذلیل ہو رہا ہے۔ اس کے معاشی حالات بھی ابتری کا شکار ہیں اور کھسیانی بلی کھمبا نوچے کے مصداق دنیا کی توجہ اپنی خامہ فرسائیوں سے ہٹانے کیلئے وہ پاکستان سے چھیڑ خانیوں اور سازشوں میں مصروف ہے لیکن پاکستان کی بہادر عسکری اشرافیہ بھارتی سرگرمیوں پر پوری نظر رکھے ہوئے ہے۔ البتہ ہماری سیاسی اشرافیہ عقل کے ناخن نہیں لیتی۔
وقت کا تقاضہ ہے کہ حکومت اور سیاسی مخالفین حالات کا ادراک کرتے ہوئے اپنا قومی فریضہ انجام دیں۔ کرونا کیلئے تو عالمی ادارہ صحت اور دیگر متعلقہ ادارے کے مطابق عرصے تک اثرات رہنے کا اظہار کر رہے ہیں لیکن اس کے باعث عالمی افق پر نمودار ہونے والی تبدیلیوں کا احساس کرتے ہوئے ہماری سیاسی قیادت کو ذاتی اغراض سے بالا تر ہو کر ملک کی بہتری کیلئے یکجا ہونا پڑے گا نا صرف سیاسی اشرافیہ بلکہ دیگر چبقات بشمول میڈیا، کاروباری و تجارتی شعبوں، دانشوروں و دیگر شعبوں کو بھی اپنا کردار دا کرنا ہوگا۔
٭٭٭

LEAVE A REPLY

Please enter your comment!
Please enter your name here