حضرت علی علیہ السلام کا طرز حکومت!!!

0
141
Dr-sakhawat-hussain-sindralvi
ڈاکٹر سخاوت حسین سندرالوی

ڈاکٹر سخاوت حسین سندرالوی

گزشتہ سے پیوستہ!!!
خواص کو اگر بخشش و عطا کے ذریعے نہ نوازا جائے تو وہ کوئی عذر قبول کرنے کے لئے تیار نہیں ہوتے جب کہ عوام سہل انگاری اور در گذر سے کام لیتے ہیں اور عذر قبول کر لیتے ہیں۔عوام ہمیشہ دین کے پشت پناہ ،امت اسلامیہ کے ناصر و یاور اور دشمنوں کے مقابلے میں سپر طاقت بن جاتے ہیں۔ لہٰذا ان کا اعتماد حاصل کرتے ہوئے انہیں ان کے بنیادی حقوق دلا کراور ان کی خبر گیری کے ذریعے اس عوامی طاقت کو محفوظ رکھنا چاہیے، حکومت کو ہر طبقہ کے ساتھ مناسب طرز عمل اور سلوک کا مظاہرہ کرنا چاہیے حکومت اور اس کے ذمہ دار افراد عوام سے دور اور الگ تھلگ نہ رہیں اور اپنے گرد کوئی ایسا حصار قائم نہ ہونے دیں کہ عوام ان تک اپنی بات نہ پہنچا سکیں۔ حکام اور عوام کے براہِ راست تعلق و ارتباط سے بڑے مفید اثرات و نتائج بر آمد ہوتے ہیں۔ حضرت امیرالمومنین علی نے اپنے ایک خط میں مکہ میں متعین اپنے گورنر کو لکھا تھا ”تم لوگوں کے لئے حج کی ادائیگی کا سرو سامان کرو اور انہیں اللہ کے دنوں کی یاد دلاو ظہر و عصر کی نماز کے بعد لوگوں کے ساتھ بیٹھو اور ان کے دینی مسائل کا جواب دو بے علم افراد کو تعلیم دو اور صاحبان علم سے بحث و گفتگو کرو، دیکھو تمہارے اور عوام کے درمیان تمہاری زبان کے علاوہ نہ کوئی اور نمائندہ ہو اور نہ تمہارے چہرے کے علاوہ کوئی اور دربان اور کسی صاحب حاجت سے اپنا چہرہ نہ چھپاو کیونکہ اگر اہل حاجت پہلی مرتبہ تمہارے دروازے سے محروم واپس ہوئے تو بعد میں ان کی حاجت روائی کے بعدبھی تمہاری کوئی تعریف نہ کی جائے گی، اصل میں حکومتوں کے حالات اور عوام و رعایا کے معاملات میں خرابی کا اہم سبب یہ ہوتا ہے کہ حکام اور مملکت کے ذمہ دار افراد حقائق و واقعات سے یا تو خود واقف ہونا نہیں چاہتے، یا وہ ان کے بارے میں کچھ جان ہی نہیں پاتے، گنتی کے چند حاشیہ نشین ،دربار اور قریب رہنے والے افراد حکام کے گرد حلقہ جمائے ریشم کے کیڑے کی مانند انہیں اپنے گھیرے میں لئے رہتے ہیں۔ان کی خوشنودی کے لئے انہیں جھوٹے اطمینان دلاتے رہتے ہیں بحرانوں کا ذکر ہی نہیں کرتے کہ کہیں حکام کے مزاج پر اس کا برا اثر نہ ہو یہ وہی نکتہ ہے جس کی طرف جناب امیرالمومنین حضرت علی نے اشارہ کرتے ہوئے فرمایا ہے کہ ” حکام کو ایسے حصاروں سے بہر حال باہر نکلنا چاہیے۔ نیز انہیں اچھے واسطوں ، ذریعوںاور پَردوں کو درمیان سے ہٹا کر ر عایا کے درمیان آنا چاہئے۔حکومتی کارندوں کے ذریعے حاصل ہونے والی اطلاعات اور اعداد و شمار کو شک کی نگاہ سے دیکھنا چاہئے اور حالات سے براہِ راست آگاہی حاصل کرنی چاہئے۔ حکومت اور عوام کے رابطے کے ایک اور نکتہ پر روشنی ڈالتے ہوئے امیرالمومنین حضرت علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے ایک موقع پر فرمایا!
’اور اگر عوام یہ گمان کرنے لگیں کہ تم نے ان پر ظلم کیا ہے تو اپنا عذر ان کے سامنے واضح کرو اور صاف بات کرتے ہوئے ان کی بد گمانی دور کرو کیونکہ حقیتاًاس کام میں تمہارے نفس کے لئے ریاضت اور سختی ہے “
حکام کا فریضہ ہے کہ وہ عوام کی غلط فہمیوں کو دور کرنے کی کوشش کریں اور اگر کوئی قابل قبول عذر ہو تو عوام کے سامنے بیان کر دیں کیونکہ عوام کے دل و دماغ میں پیدا ہونے والی یہ گتھیاں ایک نہ ایک دن شورش اور بغاوت کی شکل میں ظاہر ہو کر رہتی ہیں اور ملک و حکومت کو مشکلات سے دو چار کرنے کا موجب بن جاتی ہیں۔
٭٭٭

LEAVE A REPLY

Please enter your comment!
Please enter your name here