صبیحہ خانم اور ان کی اداکاری!!!

0
160
کامل احمر

کامل احمر

1950ءاور 1960ءکی دہائی میں جن اداکاروں نے انڈیا کے مقابلے میں پاکستانی فلم انڈسٹری کو زندگی دی ان میں صبیحہ خانم اور سنتوش کمار (سید موسیٰ رضا) کا نام فلمی تاریخ میں سنہری حروف میں لکھا جائےگا۔ ان دونوں اداکاروں کی جوڑی نے پے درپے کامیاب فلمیں دیں اور 60ءکی دہائی میں جب پاکستانی فلم انڈسٹری کا عروج تھا اور شائقین کی فلم کی فلمبندی کی خبر پڑھ کر انتظار کرتے تھے اس کے ریلیز ہونے پر یہ ایک واحد تفریح تھی ہر چند کہ بزرگ حضرات اپنے بچوں کو فلموں میں جانے سے روکتے تھے اور کوئی اچھے خاندان کا لڑکا یا لڑکی فلم میں چلے جاتے تھے تو انہیں رشتہ بتاتے ہوئے جھجک ہوتی تھی۔ ہمیں یاد ہے کہ محمد علی نے فلم چراغ جلتا رہا کی ریلیز سے پہلے اپنے والدین کو ہوا تک نہ ہونے دی تھی کہ سنتوش کمار ایک سید خاندان کے فرد تھے۔ تقسیم کے فوراً بعد وہ دلیپ کمار کے مشورے سے لاہور آگئے تھے اور پنچولی آرٹ اسٹوڈیو کی فلموں سے قسمت آزمائی کی تھی اور 1950ءمیں وہ اور صبیحہ خانم فلم بیلی میں نمودار ہوئے تھے وہ فلم تو زیادہ نہ چل سکی لیکن کئی پروڈیوسر اور ہدایتکاروں نے ان کو ہاتھوں ہاتھ لیا، مرد اداکاروں میں سنتوش کے علاوہ سدھیر بھی مقبول ہوئے تھے۔
صبیحہ خانم پر حکیم احمد شجاع پاشا کی نظر پڑی جو ہندوستان کو چھوڑ کر لاہور آئے تھے اور ان کے صاحبزادے انور کمال پاشا فلم ڈائریکشن میں تھے ان کے مشورے سے ہی سنتوش کےساتھ صبیحہ خانم کو ہیروئن کے طور پر لیا۔ دونوں کی جوڑی اداکاری اور خوبصورتی کے ا عتبار سے دیکھنے والوں کے دلوں کو چُھو گئی ہم اگرچہ کہیں، ہالیو وڈ کے رچرڈبرٹن(برٹش) اور ایلزبتھ ڈیلر کی جوڑی سے کہیں زیادہ کامیاب رہی تو غلط نہ ہوگا۔ دونوں نے شادی سے پہلے اور بعد میں لا تعداد کامیاب سپر ہٹ فلموں کی لائن لگا دی اور یقیناً یہ فلمیں د نیا کی سب سے کامیاب میاں بیوی کی جوڑی تھی کہ جس کی مثال کسی اور ملک کی فلم انڈسٹری میں نہیں ملتی، دونوں نے عرصہ تک فلم میں مرکزی رول ادا کئے۔ انور کمال پاشا کی فلم دو آنسو فلم انڈسٹری کی پہلی سلور جوبلی فلم تھی۔ صبیحہ خانم نے اپنے فلمی کیرئیر میں دو سو فلموں میں ہر طرح کے رول کئے۔ 1954ءمیں دو اور ہٹ فلمیں دیں۔ سسی اور گمنام، سسی میں ان کے ہیرو اس وقت کے مقبول کاسٹوم فلموں سے مشہور سدھیر تھے۔ فلم سپر ہٹ ثابت ہوئی۔ سدھیر کےساتھ ہی ان کی ایک اور سپر ہٹ فلم جو پنجابی تھی 1956ءکی دُلّا بھٹی تھی 1956ءمیں ایک اور فلم وعدہ نے شائقین کو بار بار دیکھنے پر مجبور کر دیا تھا۔ وہ شاید واحد اداکارہ تھیں کہ جن کا نام فلم میں آتے ہی فلم کی کامیابی کی ضمانت تھا یہ امتیاز ہندو پاک میں ان کے علاوہ شاید ہی کسی اور اداکارہ کو تھا۔ ہمیں ان کی مختلف فلموں میں اداکاری دیکھنے کے بعد یہ کہنے میں جھجک نہیں کہ وہ 5 In One اداکارہ تھیں وہ فلم کی کہانی کے مختلف کرداروں میں مینا کماری، نرگس، نمی و جینتی مالا اور گیتا بالی، کے پایہ کی اداکاری کی صلاحیتیں رکھتی تھیں کامیڈی ہو یا سنجیدہ رول بہن، بہو، ماں، بھابھی، ماڈرن عورت، مشرقی عورت وہ ہر رول میں انگوٹھی میں نگینہ کی طرح فِٹ ہونے کی صلاحیتیں رکھتی تھیں۔ وحید مراد دیور کےر ول میں صبیحہ خانم کےساتھ بہت جچتے تھے اور شاید ان ہی کےساتھ کام کر کے وحید مراد کو خود پر اعتماد پیدا ہوا تھا کہ وہ بے ساختہ اداکاری کرتے تھے افسوس بہت جلدی کی انہوں نے دنیا چھوڑنے میں۔ صبیحہ خانم نے پاک دامن میں ڈبل رول (مغربی اور مشرقی عورت) صرف نبھایا ہی نہیں تھا بلکہ وہ دونوں رول میں مختلف نظر آتی ہیں۔ ایک اور فلم ایک گناہ اور سسی میں اداکاری کی بلندیوں کو چھو رہی تھیں یہ کہنا کہ گاتے گاتے گویا بن جاتا ہے انسان لیکن وہ نور جہاں اور مہدی حسن نہیں بنتا وہ عاطف اسلم بن سکتا ہے۔ یہ ایک پیدائشی صلاحیت ہے اور بلا شبہ صبیحہ خانم یہ صلاحیتیں لے کر پیدا ہوئی تھیں۔ فلم پاک دامن کے رول کا موازنہ آپ نرگس کے ڈبل رول سے کریں جو انہوں نے فلم انہونی (خواجہ احمد عباس) کیا ہے تو آپ صبیحہ کو ہی پسند کرینگے جیسے ہم اداکاری سے زیادہ کردار نگاری کا نام دینگے۔ ان کی بے تحاشا کامیاب فلمیں ہیں جو ہم نے دیکھی ہیں ار بلا شبہ کامیاب فلمیں ہیں۔
جب 1979ءمیں ہم دہلی میں ابرار علوی (گرودت کے فلموں کے لکھاری اور صاحب بی بی غلام کے ہدایت کار) صاحبس ے اپنے خالو اختر انصاری (قطعہ نگاری کیلئے مشہور شاعر) کے گھر پر اتفاقیہ ملاقات میں گفتگو کے دوران پوچھا انہیں گر صاحب بی بی غلام کیلئے مینا کماری کی جگہ کسی پاکستانی اداکارہ کو لینا ہوتا تو وہ کون ہوتی ان کا جواب تھا صبیحہ خانم اور ان کا یہ بھی کہنا تھا کہ وہ ہر قسم کا جذباتی اور خوشی اور رکدار نگاری کارول بہت خوبی سے کر سکتی ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ اگر ملک ایک ہی ہوتا تو وہ یہاں بھی صف اول کی اداکارہ ہوتیں۔
افسوس کہ ہم پاکستانیوں نے فلم کو سنجیدگی سے نہیں لیا۔ صرف تفریح سمجھا اور نئی جنریشن فلموں میں ماڈلنگ کے راستے آتی ہیں بہت حیرت وہگی کہ ان ٹی وی ڈراموں یا چند فلموں کی شوخ فنکاراﺅں سے پوچھیں صبیحہ خانم، نیئر سلطانہ، نیلو، سدھیر، سنتوش، درپن، زیبا یا وحید مراد کی فلمیں دیکھی ہیں تو جواب ہوگا۔ ہماری پرورش تو باہر ملکوں میں ہوئی ہے ان فلموں کا دور ختم ہو گیا اور وہ تاریخ ہو گئیں مطلب دفن ہو گئیں اور اسی لئے ان کی اداکاری میں شوخی اور لچرپن ملے گا یہ ہماری ڈراموں کا تحفہ ہے۔ ہماری قوم کو ہر چیز مغرب کی اچھی لگتی ہے لیکن مغرب کی فن سے متعلق سوچ اور شعور نہیں افسوس کہ صبیحہ خانم کی وفات سے کبھی پُر نہ ہونے والا خلا رہ گیا ہے۔
٭٭٭

LEAVE A REPLY

Please enter your comment!
Please enter your name here