آج کل میڈیا میں ایک ٹرم استعمال ہو رہی ہے ففت جنریشن وار فیئر جو میدانوں میں یا فضاﺅں اور سمندروں کی بجائے نظریاتی محاذوں پر روایتی ہتھیاروں سے ہٹ کر لڑی جا رہی ہے اور دنیا بھر میں ملکوں پر اعصابی جنگ کےو ار کر کے اپنے مقاصد حاصل کئے جاتے ہیں۔
پاکستان میں آج کل اس محاذ پر جنگ تیزی سے جاری ہے بکاﺅ مال بے حس اور ملت فروشوں کے گروہ سرگرم ہیں جو تو روز ازل سے یہ مذموم کاروبار کرتے آئے ہیں میر جعفر اور میر صادق کی مثالیں اردو ادب میں مقبول عام ہیں جاسوسی کی کتابوں اور انگریزی فلموں میں اور حالیہ افغانستان وار آن ٹیرر پر جو کتابیں میں نے پڑھی ہیں ان میں بھی اپنے مقاصد کے حصول کیلئے جو حربے استعمال کئے گئے وہ بھی منظر عام پر آگئے ہیں اور ما شاءاللہ ہمارا طبقہ اشرافیہ سے لے کر عام آدمی تک نے خُوب ہاتھ رنگے ہیں اور ان پر دستانے تک پہننے کی تکلیف نہیں کیا۔ تاکہ بے گناہوں کا خون نظر آتا رہے ماشاءاللہ۔ ہمارے فوجی حکمران جنرل پرویز مشرف نے اپنی کتاب لائن آف فائرس اس کا اقرار بھی کیا جائے کہ انہوں نے لاکھوں بے گناہ انسانوں کے خون سے ہاتھ رنگنے میں سہولت کا کردار ادا کیا ہے اسلام آباد میں سابق افغان طالبان سفیر ملا عبدالسلام ضعیف جنہیں افغانستان پر امریکی قبضے کے بعد پاکستان میں قید میں رکھا گیا ان مظالم کا ذکر کیا ہے یہ جنگ تو ہم نے اپنی آنکھوں سے دیکھی ہے جو چوتھی جنریشن وارفیئر کہلاتی رہی اس کے مابعد اثرات بھی ہماری نسل کو دیکھنے کو مل رہے ہیں۔ اب ففت جنریشن وار ایک ایسے پروپیگنڈے کی جنگ ہے جو پہلی جنگوں سے مختلف ہے جو اپنے حریف پر قابو پا لیتا تھا فاتح قرار دیا جاتا تھا پھر گھوڑوں، خچروں اور اونٹوں پر جنگوں کا زمانہ آیا تیر اندازوں کی مہارت بھی جنگوں میں اہم ہوا کرتی تھی وقت کے ساتھ ساتھ رائفلز ایجاد ہوئیں برصغیر کی برطانوی فوج میں ایک ایسا وقت بھی آیا جب مسلمان رجمنٹوں کے سپاہیوں نے ایسے کارتوس استعمال کرنے سے انکار کردیا جن میں خنزیر کی چربی استعمال کی جاتی تھی۔ توپ و تفنگ ٹینک جہاز میزائل کی جنگوں کے بعد ہماری نسل کے لوگوں نے ڈرون حملوں کو بھی دیکھا جسے ہزاروں میل دور سے حملوں کیلئے استعمال کیا جاتا ہے اور اس میں حملہ آوروں کا جانی و مالی نقصان بھی نہیں ہوتا ان چار جنریشنز کے بعد اب پانچویں یعنی ففتھ جنریشن وارفیئر کا آغاز ہو چکا ہے۔ جو پروپیگنڈے اور اطالعات کی جنگ ہے جس سے سیاسی اقتصادی سٹریٹجک اور دیگر مقاصد حاصل کئے جاتے ہیں بغیر کسی نقصان اور ضیاع کے حملہ آور کو ٹارگٹ کا پتہ ہوتا ہے مگر ٹارگٹ کو آخر وقت تک پتہ نہیں چلتا کہ اسے نشانہ بنایا گیا ہے اور نشانہ بننے والا جنگ ہار چکا ہوتا ہے پاکستان پر اس وقت اندرونی و بیرونی طاقتوں نے اسی وار فیئر سے جنگ چھیڑ رکھی ہے زیادہ دور نہیں جاتے آج کل واٹس ایپ کی مقبولیت اپنے معراج پر ہے ہائی لیول اعلیٰ ترین قیادتوں اور اداروں سے لے کر ایک خاکروب اور چھابڑی والے میں یہ ایپ انتہائی مقبول ہے نوازشریف کےخالف پانامہ کیس میں سپریم کورٹ کے ایک حکمنامے کو بڑی شہرت ملی تھی گزشتہ دنوں ایک اسی جنت کے ضمن میں کسی نے ایک من گھڑت مگر پُر اثر تجزیہ شیئر کیا جس سے پاک فوج کو نشانہ بنایا گیا تھا اور آج کل یا فوج اور یا عمران خان اور ان کی حکومت اس جنگ کا نشانہ ہے ہمیں نشانہ تو معلوم ہے مگر نشانے ٹارگٹ کرنے والا کون ہے یہ واضح نہیں اس گروپ میں حاضر ریٹائرڈ فوجی افسران کے نام اور عہدے شائع کئے گئے کہ سول حکومت پر ریٹائرڈف وجی افسران قابض ہیں تمام وسائل ان کے قبضے میں ہیں یہ وار اتنا مہلک تھا کہ ایک انتہائی با اثر انٹرنیشنل میڈیا گروپ کے پاکستان میں نمائندے نے اس خبر کو نمایاں کر کے پوری دنیا میں پھیلا دیا یعنی وہ با اثر اور بہترین ساکھ رکھنے والا میڈیا گروپ خود بھی اس کا حصہ بن گیا اور اپنی ساکھ کو داغدار کر بیٹھا اسی طرح آج کل کرونا کے بارے میں طرح طرح کے تجزئیے پیش کئے جا رہے ہیں اور انہی تجزیوں کی روشنی میں بڑے بڑے عالم فاضل ان نظریوں پر یقین کر کے اسے آگے پھیلا رہے ہیں مجھے کسی نے ایک واٹس ایپ میسج پر لمبا چوڑا تحقیقی مراسلہ بھیجا ہے جس میں بتایا گیا ہے کہ برازیل کے امازون جنگلوں میں ایک آدم خور قبیلہ رہتا ہے۔ جن کی مرغوب غذا انسانی جانیں ہیں قیمتی معدنیات اور تیل کے ذخائر سے مالا مال ان جنگلات میں تیل کی تلاش کرنےو الی کمپنی کئی ملازمین کھو چکی ہے ان قبائل کی ڈیمانڈ ہے کہ انہیں انسانی جانیں یا لاشیں مہیا کی جائیں پھر وہ کام کی اجازت دینگے اس مقصد کیلئے کورونا کے جراثیم پھیلائے جا رہے ہیں یہ کوئی قدرتی وباءنہیں بلکہ انسانی اختراع ہے اس کی دوا بھی تاخیر کی جا رہی ہے تاکہ مرنے والوں کو امازون قبائل کے حوالے کیا جائے پاکستان میں یہ تو ہر خاص و عام کی زبان پر ہے کہ لاشیں امریکہ کو فروخت کی جاتی ہیں ورثاءکو دکھائی نہیں دیا جاتا کتنے ظلم کی بات ہم پاکستانی اور عمران خان اس کا ذمہ دار ہے بل گیٹس کو بھی کئی ہفتوں تک اس کا ذمہ دار قرار دیا جاتا رہا خود ہمارے پاکستانی اور اس کے دانشور کتنے ہدمرد خدا ترس اور نیک ہیں کہ یہ ظالم اور سفاک لوگ ان حالات میں بھی انسانی بلکہ اپنے ہم مذہب ہمو طنوں کی جانوں سے کھیل رہے ہیں پلازمہ کے عطیہ کیلئے لاکھوں روپے طلب کئے جا رہے ہیں ایک بارہ ہزار کا ٹیکہ بلیک میں لاکھوں میں فروخت کیا جا رہا ہے تاکہ کسی انسانی جان کو بروقت نہ بچایا جا سکے بلکہ بلیک میں فروخت کر کے جہنم کا ٹکٹ اس سے خریدا جا سکے جعلی سینی ٹائیزر بنا کر فروخت کئے جا رہے ہیں۔
گو کہ ففت جنریشن وار فیئر پر بین الاقوامی تناظر میں زیادہ تفصیل شیئر نہ کر سکا اس کیلئے پوری کتاب چاہیے کتابوں کا دور بھی گزر چکا ہے اب خلاصوں پر کام چل رہا ہے یا واٹس ایپ کی برکتوں پر۔
٭٭٭