ہم جو مسلماں ٹھہرے!!!

0
152
شبیر گُل

تم جو انسانوں کی تہذیب لئے پھرتے ہو۔!
تم سا وحشی کوئی جنگل کے درندوں میں نہیں
انسانوں کے معاشرہ میں انسانوں کی ہی شکل میں جانور اور حیوان بستے ہیں، جوہمارے درمیان ا±ٹھتے بیٹھتے ہیں اور ہماری نسل سے ہی ہیں ، کلمہ گو اور مسلمان بھی ہیں۔ جنہیںہم حضرت انسان کہتے ہیں۔
پاکستان میں ایک میڈیکل سٹور کے مالک نے اپنے میڈیکل سٹور کے باہر بینر لگا رکھاہے۔کہ یہاں پر سونے کے زیورات اور گھر کے کاغذات رکھوا کر میڈیسن لینے کی سہولت موجودہے۔زرا ر±کئیے، ٹھہرئیے اور سوچیئے۔کیا ! یہ کسی کلمہ گو اور مسلمان کی دوکان ہے۔ کیا ہم اتنے بے حس ہو چکے ہیں۔کہ موت کے سوداگر بن جائیں۔ غریب اور مجبور انسانوں کی بے بسی کا ناجائز فائدہ اٹھائیں۔ س±نا تھا کہ جب انسان دولت کا حریص بن جائے تو اس کے اندر کا جانور سے اس رحم چھین لیتاہے۔ ہم عمرہ بھی کرتے ہیں اور حج بھی، اللہ کے نام پر خرچ اور سخاوت بھی کرتے ہیں۔“شمار اس کی سخاوت کا کیا کریں کوثر۔جو چراغ بانٹتا پھرتاہے چھین کر آنکھیں۔دنیا دار ظالموں کو آپ کیا طعنہ دینگے۔ جب لمبی داڑھی اور پانچ وقت مسجد میں جماعت کے ساتھ نماز پڑھنے والے خضرات خوف خدا سے عاری ہو جائیں۔ ذخیرہ اندوزی، بلیک مارکیٹنگ، لوٹ مار اور چوری میں ملوث ہو جائیں۔ تو پھر عوام کا دیندار طبقہ سے اعتماد کا رشتہ ختم ہو جاتاہے، عوام پھر مخلص اور اللہ کے حقیقی بندوں پر بھروسہ نہیںکرتی۔ ڈاکٹرز حضرات ،جنہیں مسیحا، انسانی خدمت کے پیش نظر کہا جاتاہے۔ لیکن ڈاکٹرز زیادہ وقت اپنی سرکاری نوکری کی بجائے اپنے پرائیویٹ کلینک پر دیں، منصب سے خیانت کریں ،ادویات کی چوری اور خ±رد ب±رد میں ملوث ہوں، تو ایسے جعلی مسیحااور قصائیوں میں کوئی فرق باقی نہیںرہتا۔ ہم کیسی زندہ قوم ہیں “پہلے ماسک اور سینیٹائزر بلیک کیا۔ پھر کلوروکوئین ٹیبلٹ کی ڈبی 3000 کی ہوئی۔پھر سنامکی 200 روپے سے 2400 روپے کلو ہوئی۔ پھر ایک انجکشن بارے پتا چلا کہ کورونا کےلیے مفید ہے تو اس کی قیمت 3 سے 6 لاکھ پہ پہنچ گئی۔ پھر پلازمہ جو مفت ڈونیٹ کیا جاتا ہے اسے لاکہوں روپے میں بیچا جانے لگا۔ پھر پتہ چلا کہ پرائیویٹ سکولز کو N95 ماسک اور ٹمپریچر گن لینا لازم ہے تو 800 والی گن مارکیٹ میں 22000 روپے میں بکنے لگی۔ کبھی آٹا اور چینی کی ذخیرہ اندوزی تو کبھی پٹرول بلیک۔ کبھی کوئی بے ایمانی تو کبھی کوئی بے ایمانی۔ اللہ کے عذاب کرونا جیسی وباءکو سامنے دیکھ کر بھی ہم بے ایمانی اور درندگی سے باز نہیںآرہے۔ اللہ کے ساتھ کھلی جنگ کرنیوالی (نعوذ باللہ) اس قوم سے اب اللہ ہی پوچھے گا۔ اخلاقیات اور اعلیٰ اقدار کا درس دینے والے ، قرآن اور عشق مصطفے کے دعویدار لوگ اللہ کے عذاب سے بے خوف ہو جائیں۔ تو ایسی وبائیں ہی آیا کرتی ہیں۔ خدا کا خوف کریں اور انسان بن جائیں۔اللہ رب العزت کی بارگاہ میں ہم کیا جواب دینگے۔ ہمیں جب اندرونی دشمنوں نے گھیر رکھا ہو تو باہر کے دشمنوں کی ضرورت نہیںرھتی۔ہم اپنے ہیلوگوں کو لوٹنے پر زندگی صرف کردیں۔ نیکی اور پارسائی کے دعوےکریں۔ لیکن حقیقت میں ہمارا عمل اسکے برعکس ہو۔ایک طرف کرونا جیسی وحشت ناک بیماری نے ہمیں پریشان کر رکھاہے۔ تو دوسری طرف ہم عوام کی مجبوریوں اور بے کسی کا ناجائز فائدہ اٹھا کر کیا حاصل کرنا چاہتے ہیں۔
کیا کوئی انسانوں کو ناراض کرکے اللہ کو راضی کرسکتاہے۔؟
کیا کوئی زندگی بچانے والے ادویات کئی گنا زیادہ وصول کرکے اللہ کو راضی کرسکتاہے۔؟
کرونا کی وباءکا فائدہ ا±ٹھا کر جن لوگوں نے مال بنایا،انہوں نے اپنے لئے دوزخ کا ایندھن اور انگارے اکٹھے کئے ہیں۔
ہم کیسے لوگ ہیں دوستو! بیماری پھیلتے ہی ماسک دس گنامہنگے کردئیے،بخار چیک کرنے والا تھرما میٹر دس گنا زیادہ قیمت پر بیچ رہے ہیں۔ یہ سب ہمارے کلمہ گو مسلمان بھائی ہیں، جو اپنی مسجدوں میں مسلک کی لڑائی لڑتے ہیں ، ہم ایسی دنیا میں رہتے ہیں جہاں ہاسپیٹل میں ایک دن بیڈ کا خرچا ایک لاکھ،مریض وینٹیلیٹر پر جائے تو ایک دن کا خرچا ڈیڑھ سے دو لاکھ۔
میں اور آپ تو شائد کسی طرح یہ عذاب برداشت کر ہی لیں۔ دس سے پندرہ ہزار کمانے والے والا کیا کرئے۔ وہ خود کشی کرے؟ موت کے سوداگرز ہاسپیٹلز میں بیٹھ کر آخرت بھول بیٹھے ہیں۔
غریبوں کی مجبوری کا فائدہ ا±ٹھا کر بینک بیلنس بھرنے والے ناجائز منافع خور ،کیا اللہ کے عذاب سے بچ سکیں گے۔کیا ایسے لوگ کرونا وباءسے بڑے ناسور نہیں۔عہدے، طاقت اور کرسی کا ناجائز استعمال کرنے والے انسان نما بھیڑیئے ہیں۔
جو ایمان کا سودا اللہ کی رضا کی بجائے دوزخ کے ایندھن سے کرے ، میں اور آپ ایسے جانوروں سے انسانیت اور مسیحائی کی توقع لگائے بیٹھے ہیں۔
کئی کئی سال حکومت کرنے والے ،لوٹ مار سے اپنی جائدادیں اور محلات بیرون ملک بنا لیتے ہیں، چھینک کا علاج بہیبیرون ملک کرواتے ہیں۔ جن کی وجہ سے ہمارا ہیلتھ سسٹم ہے اور نہ ایجوکیشن پالیسی۔ مگر ہم جئیے بھٹو اور شیر اک واری فیر کے نعروں کی دنیا میں گم ہیں۔
کرونا وائرس نے پوری دنیا میں خوف و دہشت ،پیدا کردیئے۔
کرونا جس گھر میں گھستاہے ، کئی جانوں کو نگل لیتاہے۔اس کو سنجیدہ لیناچاہئے۔ جو اسے مذاق سمجھ رھے ہیں یا ہلکا لے رھے ہیں ، ا±ن سے عرضہے کہ اللہ رب العزت سے معافی اور توبہ مانگی جائے۔
علمائ سے گزارش ہیکہ اجتماعی توبہ کی جائے۔ اللہ سے اپنے غلطیوں اور کوتاہیوں کی معافی کی درخواست کی جائے۔
امریکن جریدہ کے مطابق جولائی اور اگست کے مہینے بہت بھاری ہیں۔ ایک ایک دن ہزاروں اموات کا خدشہہے۔ آئندہ چند ماہ پاکستان کے لئے انتہائی سخت ہیں۔س±ننے میں آیاہے کہ امریکہ میں کرونا کی سیکنڈ ویو جنوری میں آنے کا خدشہہے۔
لاکہوں افراد کی اموات کے خدشات ہیں۔
کرونا کی وبا کو سیریس نہ لینا بہت بڑی حماقتہے۔ یہ وبائ حقیقتا قیامت سے پہلے قیامتہے۔
حکومت کی پالیسی واضح ہونی چاہئے ، لوگوں کو اس وبائ سے بچاو¿ کا طریقہ اور کی تدابیر سے آگاہی فراہم کرنی چاہئے۔ سیفٹی پر سختی سے عمل کروانا چاہئے۔ یورپ اور امریکہ جیسے ترقی یافتہ ممالک کے ہاسپیٹلز اور ہیلتھ سسٹم collapse کر گئے۔
پاکستان تھرڈ ورلڈ کنٹریہے۔ جہاں ہیلتھ سسٹم بہت ہیکمزورہے۔ ہاسپیٹلز میں سہولیات نہیںہیں۔ ڈاکٹرز کے پاس خفاظتی کٹ کی انتہائی کمیہے۔
گزشتہ چالیس سال میں جن درندوں نے ملک لوٹ کر جہنم کا ایندھن اکٹھا کیا۔ لوگ آج بہیانہی کے نعرے لگاتے ہیں۔
اس بے شعور قوم کا اللہ ہیخافظ۔
جب چالیس برس قبل پاکستان کی آبادی دس کڑوڑ تہی، معروف انقلابی شاعر حبیب جالب نے ان دس کڑوڑ عوام کو گدھے کہا تھا۔ جہل کا نچوڑ کہا تھا۔
چالیس برس بعد ہماری آبادی بائیس کڑوڑ پہنچ چکیہے۔ لیکن ہیلتھ کا نظام پہلے سے بہیبری حالت میںہے ، پرائیوٹ ہاسپیٹلز کے اخراجات عوام کی پہنچ سے دور ہیں۔
سرکاری ہاسپیٹلز کو مہیا کی جانے والی ادویات مریضوں کی پہنچ سے دور ،بازاروں میں بک جاتی ہیں ، پورا معاشرہ کرپٹ اور ہر ادارہ بے خوف لوٹ مار میں مصروفہے۔
جب صدر، وزیراعظم اور وزرائ کرپٹ اور بدکار ہوں تو عوام بے آسرا ہوا کرتیہے۔
جب معاشرے سے گناہ کا خوف اٹھ جائے، تو ایسے معاشرے تباہی کا شکار ہوا کرتے ہیں۔ جب غریب روٹی کوڑے سے تلاش کرتا ہو۔جہاں منصف اور قاضی فیصلہ مجرم سے پوچھ کر لکھتا ہو تو ایسے میں عذاب الہی کو کوئی نہیںروک سکتا۔
کیا ہم نے کبہیجائزہ لیاہے کہ ہم انسان ہیں اور اللہ کی کتاب قرآن حکیم کس چیز کی متقاضیہے۔ ہم تاجر بہیہیں، دکانداربھی ہیں ، ڈاکٹر بھی ہیں ،وکیل بھی ہیں ،عالم بھی ہیں ،ا±ستادبھی ہیں، دیکھنا یہ ہے کہ آیا انسان بھی ہیں یا نہیں۔ جناب رسول اللہ نے انسانیت کی نشانیاں بتائی ہیں، جو جانور اور انسان میں فرق کرتی ہیں۔ دنیا کی چند روزہ زندگی میں عوام کو لوٹنے کا تماشا کرلو، آخر جانا خالی ہاتھ ہے۔ اور پھر کفن کی جیبیں بہین ہیںہوتیں۔ اور نہ ہی کوئی جائیداد ،بنگلہ اورمحل نے ساتھ جاناہے۔ ہمیں سوچنا چاہئے کہ موت کا فرشتہ ہمارے اردگرد ہی گھوم رہاہے۔ شائد ہم میں سے ،کسی کی موت کا ٹوکن ا±سکے پاس ہو۔وہ کسی لیڈر، ڈاکٹر، وکیل یا طاقتور کا لخاظ نہیںکرتا۔ ا±سکی نظر ہم پر بھی پڑسکتی ہے۔ موت کا پروڈکشن آرڈر کہیں سے بھی نکل سکتاہے۔ آئیے زندگی کی قدر کریں اسکو اللہ کی نعمت مانتے ہوئے موت سے پہلے آخرت کا سامان کرلیں۔ اللہ ہماری کمزوریوں کو معاف فرمائے ،پسندیدہ بندوں میں شمار فرمائے۔(آمین)۔
٭٭٭

LEAVE A REPLY

Please enter your comment!
Please enter your name here