جاوید رانا
اس وقت جب عالمی منظر نامہ مختلف وجوہ و حالات کے باعث غیر معمولی طور پر فکر انگیزی کا نقشہ پیش کر رہا ہے کرونا کے باعث ایک جانب عالمی معیشت کا پلڑا اپنی جہت تبدیل کر رہا ہے، سیاسی حوالوں سے ملکوں کے درمیان تعلق اور تفاوت کے پیمانوں میں تبدیلی نظر آرہی ہے، خصوصاً بھارت اور چین کے درمیان بڑھتے ہوئے تنازعہ کے نتیجے میں عالمی سطح پر گروپنگ اور اس تناظر میں خطہ کی صورتحال میں جو کشیدگی سامنے آرہی ہے، وہ نہ چاہنے کے باوجود بھی پاکستان کیلئے کسی طرح مثالی یا اطمینان بخش نہیں۔ چین سے پنگا لے کر مودی اور بھارتی حکومت کو جو ذلت اُٹھانی پڑی ہے اور بھارت نے جس انداز میں چین کی لداخ و تبت میں پیش قدمی کی تکفیر کرتے ہوئے یہ بیانیہ اپنایا ہے کہ چین نے بھارت کے کسی علاقہ پر قبضہ نہیں کیا جبکہ چینی حکومت کا بھی یہی استدلال ہے کہ چینی افواج اپنے علاقے کی ہی نگرانی اور پوزیشنز مستحکم کر رہی ہے۔ اس صورتحال میں بھارت کا امریکہ، اسرائیل، فرانس اور روس سے اسلحہ و دیگر حربی ساز و سامان لینے کا مقصد واضح نظر آتا ہے کہ مودی اور بھارتی حکومت کا اصل مقصد اور منصوبہ کیا ہے اور F-21، رافیل، اینٹی بلیسٹک میزائل ایئر کرافٹ و دیگر ساز و سامان کا حصول کس کےخلاف ہو سکتا ہے۔ اس حقیقت سے کوئی انکار نہیں کہ بھارت کی ازلی دشمنی پاکستان اور پاکستان کے وجود سے ہے اور تین بڑی جنگوں کے علاوہ بھارت پاکستان کےخلاف پراکسی وار، ففتھ جنریشن وار، سرحدی جھڑپوں اور LOC کی خلاف ورزیوں میں مسلسل مصروف رہتا ہے۔ بھارتی ایجنسی را طرح طرح کی سازشی سرگرمیوں کے ذریعے پاکستان کی سالمیت پر وار کرنے میں لگی رہتی ہے جس میں NDS بھی اس کی شریک کار رہتی ہے۔ یہ الگ بات ہے کہ ہماری ایجنسیز اپنی بے مثال صلاحیتوں سے دشمن کے عزائم کو ناپاک بنا دیتی ہیں۔ ہماری عسکری قیادت دشمن کے ہر اقدام کو خاک میں ملا دیتی ہے لیکن کیا یہ فریضہ ہماری افواج اورا نجسیز کی ہی محض ذمہ داری ہے کیا ہماری سیاسی اشرافیہ کا یہ فرض نہیں کہ وہ بھارتی جنونیوں کے منصوبوں اور پاکستان دشمن حرکات کو ناکام بنانے کیلئے اپنی سیاسی و مفاداتی سرگرمیوں کی جگہ ملک کی بقاءو تحفظ کیلئے یکجہتی کا عملی مظاہرہ کرے۔ مودی اور بھارتی ریاست کو اس وقت داخلی بحران اور چین سے کشیدگی کے باعث جس ہزیمت کا سامنا ہے، نیپال، بنگلہ دیش اور بھوٹان جیسے ممالک سے نزاعی کیفیت درپیش ہے نیز مقبوضہ جموں و کشمیر میں اس کے مظالم پر عالمی ادارے اور ممالک کی تنقید کا سامنا ہے۔ اس صورتحال سے دنیا کی توجہ ہٹانے اور اپنے عوام کو مطمئن کرنے کیلئے مودی اور اس کے عسکری اداروں کے پاس ایک ہی حربہ رہ جاتا ہے کہ وہ پاکستان سے چھیڑ خانی کریں۔اس صورتحال کا اندازہ یقیناً ہماری عسکری قیادت کےساتھ، حکومت، سیاسی مخالفین اور دیگر شعبوں کے ذمہ داروں کو بخوبی ہے لیکن کیا خصوصاً ہماری سیاسی اشرافیہ حالات کی مطابقت سے عمل کر رہی ہے؟
ملکی صورتحال میں اس وقت جن نکات یا موضوعات کو سبقت دی جا رہی ہے وہ محض ایک دوسرے پر تنقید، الزام تراشی و سیاسی برتری کے گروہی گھوم رہے ہیں۔ مائنس ون، تھری، آل کی بنیاد پر حکومتی تبدیلی، اٹھارہویں ترمیم کے جھگڑے، نیب اور دیگر اداروں کے حوالوں سے حکومتی اور مخالف سیاستدانوں میں ایک دوسرے پر الزام تراشی روز کا معمول ہے۔ دکھ کی بات ہے کہ بھارت اور مودی کے ناپاک عزائم اور تبدیل ہوتے ہوئے عالمی منظر نامہ پر نہ ہی پارلیمان میں کوئی بات کی جاتی ہے اور نہ ہی کوئی واضح لائحہ عمل نظر آتا ہے۔ ترجیح اس بات کو دی جاتی ہے کہ اسلام آباد میں مندر کی تعمیر کیوں ہو، حکومت ناکام ہو چکی ہے اسے ہٹانے کیلئے APC بلائی جائے مخالفین پر غلط مقدمے، سیاسی مخاصمت کی بناءپر بنائے جا رہے ہیں۔ وزیراعظم مافیا اور کارطیلز کے حصار میں اور ان کےخلاف کچھ نہیں کر سکتے مخالفین ان نکات پر شور شرابا کرتے ہیں تو حکومتی ارکان مخالفین کا کچا چٹھا کھولنے کےساتھ اس حد تک چلے جاتے ہیں کہ ریاست کے سب سے اہم ادارے میں ہاتھا پائی تک کی نوبت آجاتی ہے سوال یہ ہے کہ کیا یہ وقت ان باتوں یا حرکات کا ہے۔ مندر کے حوالے سے لیگی رہنماﺅں کو یہ یاد نہیں کہ اس کے سنگ بنیاد کی رسم لیگی حکومت کے دور میں اس وقت کے وزیر دفاع خواجہ آصف نے کی تھی، اب اگر پی ٹی آئی اس کی تعمیر کر رہی ہے تو نواز لیگ کو اعتراض کیوں ہے۔ ویسے بھی اسلامی جمہوریہ پاکستان کا آئین ہر مذہب، ہر دھرم کی عبادات و رسوم کی اجازت دیتا ہے۔ آئین کی بات آئی ہے تو یہ عرض کرتے چلیں کہ 73ءکے آئین میں اٹھارہویں ترمیم کا مقصد اختیارات کے لوکل باڈیز تک منتقلی اور عوام تک اس کے فوائد پر پہنچانا تھا، کیا اس بنیادی مقصد پر عمل کیا گیا؟ جواب نہیں ہے۔ آرٹیکل کے حوالے سے سندھ اور وفاق کے درمیان جو تم پیزار کرونا کے حالیہ سین میں زیادہ ہوئی صحت کے معاملات کو بنیاد بنا کر ایک دوسرے کو مورد الزام بتایا جاتا رہا ہے ہمارا نکتہ نظر یہ ہے کہ اگر اس ترمیم کی بعض شقوں میں تبدیلی سے عام آدمی کو سہولت مل جائے تو اس پر اپوزیشن کا شور کیا معنی رکھتا ہے۔ اسی طرح اگر وفاق کو اپنے وسائل بہتر کرنے کا راستہ ملتا ہے تو یہ ملک کے مفاد میں ہی ہوگا۔ سچ تو یہ ہے کہ مخالفین تو اپنی جگہ خود حکومتی ارکان او رہنما بھی اس ایشو کو سنجیدگی سے نہیں لے رہے اور مخالفین پر پتھراﺅ کا ذریعہ بنا رہے ہیں۔
خطہ اور عالمی صورتحال کو مد نظر رکھتے ہوئے ہماری سیاسی اشرافیہ (حکومت و اختلافی) کا یہ رویہ کسی بھی طرح مثبت نہیں کہا جا سکتا۔ اس خرابی میں مزید اضافہ ہمارا میڈیا اور سوشل میڈیا کر رہا ہے جو اپنے چسکے، ریٹنگ اور بعض صورتوں میں بھارت کے چھپے ہوئے نمک خواروں کے ایجنڈے کے تحت منفی پروپیگنڈے پر گامزن ہے۔ حکیم الامت نے کہا تھا فرقہ بندی ہے کہیں اور کہیں ذاتیں ہیں۔ کیا زمانے میں پنپنے کی یہی باتیں ہیں، ہمارا بھی اپنے قومی و سیاسی رہنماﺅں، میڈیا اور دیگر شعبوں کے ارباب سے یہی سوال ہے ذات، تفرقہ و سیاست کے مفاد میں قومی مفاد کو نہ بھولیں، حالات کو سمجھیں اور ایک قوم ہونے کا ثبوت دیں۔ دشمن ہمارے خلاف صف آراءہے اور ہمیں خواب خرگوش سے جاگنا ہوگا، ہمیں ہجوم نہیں قوم بننا ہوگا۔
٭٭٭