رعنا کوثر
ابھی کچھ دنوں پہلے یعنی سال بھر پہلے کی بات ہے شادیوں کا ایک سلسلہ تھا اپریل سے لے کر اگست تک ہمارے ہفتے اتوار مصروف تھے نہ صرف شادی کی دعوت بلکہ ہر ہفتے ڈھولکیاں، پھر مایوں، مہندی، پھر شادی اور پھر ولیمے گھر میں خاندان میں جاننے والوں میں سب ملا کر چار شادیاں بھی گرمیوں میں انجام پائیں تو ہر ہفتہ مصروف گزرا۔ بہت خوبصورت وقت گزرتا ہے جب شادیوں کا مخصوص سیزن گرمیوں میں شروع ہوتا ہے رنگا رنگ کپڑے، خوبصورت سجے سجائے شادی ہال، مہندی کے سجے ہوئے تھال، بے شمار حسین رنگوں سے سجے دولہا دلہن کیلئے غرض کے رنگ و روشنیوں کا ایک طوفان ہوتا ہے ،ہماری دیسی شادیاں ڈھول پیٹ کر کی جاتی ہیں، اس آواز کا اپنا مزا ہے، ڈی جے اور دوسرے موسیقی کے آلات سے ہٹ کر اس کی آواز لوگوں کو جوش دلا دیتی ہے اور بےگانی شادی میں عبداللہ دیوانہ نظر آتا ہے ،سالہا سال سے امریکہ میں شادیاں اٹینڈ کر رہے ہیں اب دو بیٹیوں کی بھی شادی کی، ہر شادی کا اپنا مزا رہا کسی نے سنگیت اور ڈی جے کو پسند کیا کسی نے نہیں۔ کسی نے سادگی اپنائی مگر والدین کے ایماءپر مہمانوں کی تعداد میں کمی نہیں آسکتی تھی ہم مہمان نواز پُر خلوص لوگ ایک شادی پر پوری حیات مکمل ہمارا یہی طرز زندگی ہے، ایسا نہیں ہو سکتا کہ کوئی بلانے سے رہ جائے اس لئے ہر شادی چاہے پاکستان میں ہو یا امریکہ میں ہمارے دیسی لوگ انتہائی بھرپور طریقے سے انجوائے کرتے ہیں ،دوسری قومیں جو امریکہ میں ہیں وہ بھی شادی میں اتنے زیادہ مہمان تو نہیں بلاتے مگر ان کی بھی شادی عزیز دوستوں، رشتہ داروں کے بغیر مکمل نہیں ہوتی۔ اچھا کھانا، اچھا ہال اور دلہن کا خوبصورت سفید لباس ضروری ہوتا ہے۔ چاہے شادی میں پچیس لوگ آئیں، خاص طور سے آج کل کی شادی جہاں دولہا دلہن تعلیم اور نوکری کے بعد اسی ایک فنکشن کیلئے اپنی عمر کا ایک حصہ انتظار میں گزار دیتے ہیں اور ان کا دل چاہتا ہے کہ شادی چاہے بڑے پیمانے پر ہو چاہے چھوٹے پیمانے پر سادگی سے ہو یا دھوم دھڑکے سے مگر بہت خوشی سے بغیر کسی خوف کے ہو۔ وہ ایک دن اپنا ہو جو اپنے طریقے سے منایا جائے مگر ایک سال میں جو حالات بدلے ہیں اور Covid-19 نے جو خوف پھیلایا ہے اس گرمیوں میں شادی کا انداز ہی بدل گیا ہے کچھ نے تو اپنی شادی اگلے سال پر ملتوی کر دی مگر کچھ لوگ جو شادی آگے بڑھانا نہیں چاہتے تھے، دس بارہ لوگوں کی موجودگی میں اب شادی کر رہے ہیں پہلے تو لوگ بہت اداس ہوئے یہ کیسی شادی ہے نہ بینڈ باجہ نہ باراتی نہ انواع و اقسام کے کھانے مگر اچانک انہیں بے حد سکون بھی ملا، اس قدر سادگی سے بھی شادی ہوتی ہے بلکہ دلہنوں کے چہرے پہ زیادہ تازگی نظر آئی کہ نہ ایک دن پہلے کا مہندی مایوں کی جگائی اور نہ ہی پارلر کا تھکا دینے والا تجربہ، والدین بھی سکون میں رہے کہ مہمانوں کا کوئی تناﺅ نہیں پورا وقت دلہا والوں کو یا دلہن والوں کیلئے مخصوص۔ کسی کی طرف سے شکوہ نہ شکایت نہ دولہا دلہن کو ہنی مون کا تھکا دینے والا سفر۔
کیا اس سال کے بعد جبکہ حالات انشاءاللہ بہتر ہو جائینگے دنیا اس وباءسے نجات پا لے گی لوگوں کا رحجان بدل چکا ہوگا شادیوں کا انداز بدل جائےگا رسم و رواج ختم ہو جائینگے شادی بوجھ نہیں سکون کا باعث ہوگی، یا لوگ اس وقت کے منتظر ہیں جب دوبارہ رنگ و بو شہنائیاں ان کی زندگی میں ضرورت سے زیادہ سادگی اور خاموشی کو ختم کرینگی ۔
میرا خیال ہے کہ لوگوں کا مزاج بہت حد تک بدل چکا ہے اور زیادہ نہیں تو ایک چوتھائی لوگ اب سوچ رہے ہیں کہ ایسی شادی بھی کچھ بُرا تو نہیں!دیکھتے ہیں وقت کیا کہتا ہے!!!
٭٭٭