دہلی:
اس سال فروری میں دہلی کے خونریز فسادات میں مسلمانوں کی منظم نسل کشی کی گئی، جس دوران مسلمانوں کو قتل کرنے کے علاوہ ان کی دکانوں، مکانوں اور گاڑیوں کو چن چن کر نشانہ بنایا گیا۔
واضح رہے کہ ہندوستان میں شہریت کے نئے اور متنازعہ قوانین کے خلاف احتجاج کے ساتھ ہی دہلی میں فسادات کا یہ سلسلہ بھی شروع ہوگیا جو کئی روز جاری رہا، جس دوران 53 افراد ہلاک اور 200 سے زیادہ زخمی ہوئے جن کی بھاری اکثریت مسلمانوں پر مشتمل تھی۔
فسادات کے دوران بی جے پی اور شیوسینا نے مسلمانوں پر الزامات لگائے جبکہ بھارت کی مسلم اور سیکولر تنظیموں نے ان فسادات کو دہلی میں مسلمانوں کی نسل کشی قرار دیا۔
دہلی اقلیتی کمیشن (ڈی ایم سی) نے ان فسادات کے بارے میں تفتیشی رپورٹ جاری کرتے ہوئے کہا کہ یہ مسلمانوں کی منظم نسل کشی تھی جس دوران مسلمانوں کے قتلِ عام اور ان کی املاک کو تباہ کرنے کے علاوہ مجموعی طور پر 11 مساجد، 5 مدارس، ایک درگاہ اور مسلمانوں کے ایک قبرستان پر حملہ کرکے انہیں نقصان پہنچایا گیا۔
اس رپورٹ میں بطورِ خاص دہلی پولیس کو ذمہ دار ٹھہراتے ہوئے کہا گیا ہے کہ جب فسادات کے دوران ’’جے شری رام‘‘ کے نعرے لگاتے ہوئے نقاب پوش، مسلمانوں کو قتل کرنے اور ان کی املاک کو تباہ کرنے میں مصروف تھے، اس وقت دہلی پولیس کے اہلکار بھی قریب ہی موجود تھے مگر وہ خاموشی سے تماشا دیکھتے رہے۔