مجیب ایس لودھی، نیویارک
بزرگ افراد کسی بھی معاشرے کے سدھار میں ریڑھ کی ہڈی کی سی حیثیت رکھتے ہیں کیونکہ وہ اپنی عمر کا حصہ ان ہی مشکلات کو حل کرتے ہوئے گزار چکے ہوتے ہیں جوکہ جواں سال یا ان سے کم عمر افراد کو درپیش ہو تی ہیں لیکن جسمانی اور اعصابی کمزوری کی وجہ سے ان میں اتنی طاقت نہیں ہوتی کہ وہ خود لوگوں کاہاتھ بٹا سکیں البتہ رہنمائی ضرور کر سکنے کی سکت رکھتے ہیں لیکن بدقسمتی سے امریکہ سمیت دنیا بھر میں اس طرح کے141ملین بزرگ افراد ایسے ہیں جوکہ معاشرتی بداخلاقی کا شکار رہتے ہیں ،چاہے وہ اپنوں کے ظلم و زیادتیوں کے حوالے سے ہو یا پھر مالی تنگدستی کے حوالے سے ، ایک تازہ ریسرچ کے مطابق دنیا بھر میں ہر 6 میں سے1 بزرگ شہری اس طرح کی معاشرتی ناچاقیوں کا شکار بنتا ہے ، نیویارک کی بات کی جائے تو یہاں عمر رسیدہ افراد کی تعداد 4ہزار سے زائد بتائی جاتی ہے جوکہ مالی تنگدستی کا شکار ہیں اور کالے افراد کی تعداد اس ضمن میں سب سے زیادہ ہے ، امریکہ میں رہائش پذیر تارکین کی بڑی تعداد بھی اپنے بزرگ شہریوں سے ناروا سلوک میں پیش پیش ہیں ، امریکہ میںرہائش پذیر ایشین تارکین کی بڑی تعداد امریکی شہریت کے حصول کے بعد پہلی فرصت میں اپنے والدین کو امریکہ بلا لیتے ہیں اس بات سے قطع نظر کہ یہ ماحول ان کے لیے ساز گار ہے یا نہیں ، تارکین بزرگوں کی اکثریت گھروں میںبچوں کےساتھ کھیل کھیل کر اُکتا جاتی ہے اور جب وہ باہر نکلتے ہیں تو منہ چڑھے لوگ دیکھ کر دوبارہ کمروں میں قید ہو جاتے ہیں یعنی وہ اس ماحول کی اپنی اولاد سے شکایت کرنے سے بھی گریزاں ہوتے ہیں اور بس موت کا انتظار کرتے رہ جاتے ہیں ، یعنی بیرون ممالک کا ماحول ایسے بزرگ افراد کے لیے ”اوپن جیل“ بن کر رہ جاتا ہے ۔تارکین نوجوان اپنے والدین کی آمد پر بہت خوش ہوتے ہیں اور ابتدائی ایام میں والدین کو وقت دیتے ہیں اور اس کے بعد زندگی کی مصروفیت میں گم ہو جاتے ہیں ، ہر وقت انگریزی زبان میں گفتگو ، والدین کو نظر انداز کرنا گویا وہ والدین کو امریکہ موت کے سپرد کرنے کے لیے بلاتے ہیں کیونکہ بیرون ممالک کا ماحول ان کے لیے کسی eathCell Dسے کم نہیں ہوتا ہے ، والدین کا بوجھ سر سے اُتارنے کے لیے اکثر تارکین اور دیگر سفید فام شہری اپنے والدین کو دن میں ڈے کیئر سینٹر کے حوالے کردیتے ہیں اور پھر شام کو گھر واپسی کے وقت ان کو پک کرلیتے ہیں اگر ایشائی تارکین کی بات کی جائے تو ہمارے پاکستان اور بھارت میں بزرگ شہری کھلے ماحول کے عادی ہوتے ہیں گھر سے باہر نکلتے ہی چاروں طرف سے سلام ، حال احوال پوچھنے کا سلسلہ ، دوستوں کے مذاق بزرگ شہریوں کو دوبارہ سے نوجوان بنا دیتے ہیں ۔ والدین درحقیقت انسان کے دنیا میں آنے کا ذریعہ ہوتے ہیں،ہمارا وجود والدین کی وجہ سے ہوتا ہے ، اسی لئے اللہ تعالیٰ نے بھی والدین کے ساتھ ح±سن سلوک کا حکم دیا اور ان کے حقوق کی ادائیگی کی تلقین کی ہے۔محبت کا جذبہ فطری طور پر بدرجہ اتم والدین کو عطا کیا گیا ہے۔اولاد کے لئے والدین دنیا کی سب سے بڑی نعمت ہیں،والدین کی جس قدر عزت و توقیر کی جائے گی اسی قدر اولاد سعادت سے سرفراز ہوگی شریعت میں والدین کے ساتھ ح±سن سلوک کا حکم دیا گیا ہے۔ارشاد باری تعالیٰ ہے ”اور تیرا پروردگار صاف صاف حکم دے چکا ہے تم اس کے سوا اور کسی کی عبادت نہ کرنا اور ماں باپ کے ساتھ احسان کرنا۔ اگر تیری موجودگی میں ان میں سے ایک یا دونوں بڑھاپے میں پہنچ جائیں تو ان کے آگے ا±ف بھی نہ کہنا ،نہ انہیں ڈانٹ ڈپٹ کرنا بلکہ ان کے ساتھ ادب و احترام سے بات کرنا۔“ والدین بچوں کو سخت محنت کے بعد پال پوس کر جوان کرتے ہیں ، ان کو اچھی تعلیم دلواتے ہیں ، روزگار کی تلاش میں ان کا سہارا بنتے ہیں پھر شادی کر کے پریکٹیکل لائف میں بھی مدد فراہم کرتے ہیں اس سب کچھ کے بعد اولاد والدین کو سر پر بٹھاتی ہے ، ان کی عزت و تکریم اولاد کے لیے اپنے اہل خانہ میں سب سے زیادہ اولین سمجھی جاتی ہے ،ایسے بزرگ شہری کسی صورت بھی امریکہ یا دیگر یورپی ممالک کی خود پسندی کی زندگی کو قبول نہیں کرتے ہیں ، شاید وہ اپنے بچوں سے اظہار کی بھی طاقت نہ رکھتے ہوں ، اس لیے دل ہی دل میں بس موت کے انتظار میں دن گزار دیتے ہیں ، تارکین کو چاہیے کہ خاص طور پر پاکستان اور بھارت کے بزرگ شہریوں کو اپنے ہی ماحول میں رہنے دیں ، معروف امریکی جریدے کی رپورٹ کے مطابق سفید فام اور دیگر کمیونٹی کے بزرگ شہری مالی تنگدستی اور ذہنی اذیت کا شکار ہو کر مختلف بیماریوں میں جکڑے جاتے ہیں ، 2018کی تحقیقاتی رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ ہر 24میں سے 1 بزرگ شہری مالی تنگدستیوں کی وجہ سے سے مختلف امراض کا شکار ہوتا ہے ، بزرگ شہریوں کے اس صورتحال سے دوچار ہونے کے باعث ہی کورونا وائرس کے دوران ان کی سب سے زیادہ اموات ریکارڈ کی گئیںکیونکہ وہ پہلے ہی معاشرتی بے راہ روی ، مالی تنگ دستیوں اور مختلف بیماریوں کا شکار ہو کر زندگی کی آخری سٹیج پر پہنچ چکے تھے۔ طبی ماہرین کے مطابق کسی بھی بزرگ شہری کی جسمانی اور اعصابی حالت میں بہتری میں سب سے زیادہ مددگار انسانی رہنمائی ہوتی ہے ، بزرگ افراد کے ساتھ وقت گزارنے ، باتیں کرنے اور ان کے غم کو بانٹنے سے ہی وہ اپنے اندر کمال کی طاقت محسوس کرتے ہیں لیکن پورا دن خاموشی سے گھر کے ایک کمرے میں گزارنے سے وہ ذہنی بیماریوں سے دوچار ہو جاتے ہیں ، مئی 2020میں امریکی جرنل کی شائع کردہ رپورٹ میں بتایا گیا کہ ایسے عمر رسیدہ افراد جو کورونا سے بچ نکلنے میں کامیاب ہوئے ہیں کو اہل خانہ کی توجہ کی بے حد ضرورت ہے اور اگر اس کو پورا کر دیا جائے تو وہ زیادہ تیزی سے معمولات زندگی کی طرف لوٹ آئیں گے ، برطانوی جرنل میں شائع کردہ تحقیق کے مطابق امریکہ بھر میں 10فیصد ایسے بزرگ شہری موجود ہیں جوکہ ڈے کیئر سینٹر کی سہولت سے عاری ہیں اور ان افراد میں سماجی مسائل سب سے زیادہ پائے جاتے ہیں جن میں سب سے بڑی وجہ مالی تنگدستی اور اولاد کی گھریلو ناچاقیاں بتائی گئی ہیں ، دیار غیر کے موجودہ حالت ایشیائی تارکین سے چیخ چیخ کر اس بات کا مطالبہ کرتے ہیں کہ وہ اپنے بزرگوں کے ساتھ اپنے رویوں کو مذہبی روایات اور آبائی معاشرتی روایات کے مطابق ڈھالیں تاکہ ان کے والدین ان کے لیے دعاﺅں کا سبب بنیں نہ کہ ان کیلئے بددعاﺅں کا سبب بنیں ، اللہ تعالی ہم سب کو اپنے والدین کی خدمت اور آخرت میں ان کی نجات کا ذریعہ بننے کی توفیق عطا فرمائے ۔امین