مجیب ایس لودھی، نیویارک
دور جدید کا انسان مشینی زندگی کے رنگ میں مکمل طورپر رنگ چکا ہے ، صبح سے شام اور شام سے صبح ایک مدار میں دفتر سے گھر اور گھر سے دفتر کے چکر میں گھوم رہا ہے ، محنت و مشقت کے باوجود زندگی کا پہیہ اسے سکون نہیں پہنچا رہا لیکن کوئی بھی شخص اپنی ناکامی کی وجوہات جاننے اور ان کا ادراک کرنے کے لیے تیار نہیں ہے ، ہم چوبیس گھنٹوں میں سے ایک پل بھی اپنی ذات کو دینے کے لیے تیار نہیں ہیں کہ اپنے اعمال کا محاسبہ کرسکیں ، دنیا میں کامیابی کے لیے صرف محنت ہی کافی نہیں بلکہ دین کو بھی ساتھ لے کر چلنے کی واضح ہدایات ہیں ،اخلاقی اقدار کو اپنانا بھی کامیابی کی سیڑھی قرار دی جاتی ہے لیکن بدقسمتی سے آج کا انسان اس سے میلوں دور صرف جذبات، لفاظی اور خیالی پلاﺅ پکائے حقیقت سے بہت دور چلا گیا ہے ، ہم روز صبح اٹھتے ہیں تو خود کو مسائل میں گھرا پاتے ہیں ، رات کوبے شمار مسائل کی وجہ سے پرسکون نیند لینے سے عاری ہیں ، ضروریات، خواہشات اتنی ہیں کہ کم ہونے کو نہیں آتیں بلکہ بے شمار لوگ تو عام انسان کی بنیادی ضروریات یعنی روٹی، پانی، رہائش سے ہی محروم ہیں ،فیس بک پر آئے دن پکڑ دھکڑ، ڈاکہ زنی کے واقعات عام نظر آتے ہیں۔
میڈیا پاکستان کے معاشی حالات کو بد سے بدتر دکھا رہا ہے، ہر کوئی دوسرے کو الزام دیتا نظر آتا ہے سابقہ حکومتوں کو جب وقت ملا تھا تو انہوں نے بھی عوام کی سہولیات کیلئے کچھ نہ کچھ کیا حالانکہ انہی کے ووٹوں سے اقتدار میں آئے تھے اور اب موجودہ حکومت کو الزام دے رہے ہیں اسی طرح موجودہ حکومت بھی بڑی تبدیلی کا نعرہ لگا کر آئی تھی لیکن کچھ کرتی نظر نہیں آرہی۔ ایک ہیجان کی صورتحال ہے لوگ اپنے لیڈروں پر نثار ہونے کو تیار ہیں لیکن اپنے ملک کی محبت کسی میں نظر نہیں آتی جبکہ انہیں کون سمجھائے کہ ملک ماں کی حیثیت میں ہوتا ہے ملک ہے تو ہی تمام لیڈران ہیں لیکن محب وطنی کا شدید فقدان ہے ہم نے اپنی تاریخ سے بھی سبق نہیں سیکھا کیونکہ اصل حقیقت صرف تاریخ میں ہوتی ہے آپ مڈل ایسٹ کی جانب نظر ڈالیں، صدام حسین، قذافی اور دوسرے تمام مڈل ایسٹ کے رہنما اور ممالک کبھی ان کی کیا شان ہوتی تھی لیکن ان کے غرور و تکبر اور اپنی عوام پر ظلم و تشدد کا نتیجہ یہ نکلا کہ جب ان پر امریکہ حملہ آور ہوا تو خود ان کی عوام نے ان کا ساتھ نہ دیا اور آج ان ممالک کے تیل کے کنویں خود ان کے اختیار میں نہیں ہیں۔ امریکی سرکار اپنی مرضی سے اپنے جہازوں میں تیل بھرتے ہیں آج اسرائیل مکمل طور پر پورے مڈل ایسٹ میں تمام عرب ممالک پر بھرپور انداز سے چھایا ہوا ہے اس کی سب سے بڑی وجہ مذہب سے دوری ہے جس قوم کے قدم اپنے مذہب اپنے رسم و روایت سے اُکھڑ جائیں تو زمین بھی اس قوم کا ساتھ چھوڑ دیتی ہے۔ آج فلسطی، شام، لبنان، عراق اور لیبیا کے محلوں کو کھنڈرات میں دیکھتے ہوئے دل خون کے آنسو روتا ہے، اسی طرح کشمیر کے مظلوم مسلمانوں پر جس طرح تشدد اور ظلم و ستم ہو رہا ہے اور ہمارے عرب ممالک خاموش بیٹھے تماشائی ہیں انہیں نہیں معلوم کہ اسی طرح کا وقت اُن پر بھی آنے والا ہے۔
آج دنیا بھر کے مسلمان زیر عتاب ہیں اور ایسے میں آپ صرف اتفاق کا نام نہیں دے سکتے بلکہ یہ سب ہمارے مخالفوں کی بہترین پلاننگ ہے جس کا آغاز 9/11 سے ہوتا ہے اور پھر یورپ میں 7/7 اور اس کے بعد مسلسل اسلامی فوبیا کا پرچار یہاں کے میڈیا میں عام ہے، ہمارا صدر ٹرمپ صدارت سنبھالتے ہی مسلم ممالک سے امریکہ آنے والوں پر پابندی لگانی شروع کر دیتا ہے جبکہ حیرت ہے کہ تمام مسلم ممالک خاموش بیٹھے ہیں۔ ہمیں سچائی کا اعتراف کرنا ہوگا کہ ہمارا ایمان کمزور ہو چکا ہے ہمیں اپنی غلطی کا اعتراف کرنا پڑے گا کہ ہم میں اتحاد، اتفاق و اُخوت کا فقدان ہے، ہم نے روس کےخلاف اتفاق و اتحاد سے جہاد کیا تو دنیا نے دیکھا کہ روس کو پاش پاش کر دیا، ہم میں ایک دوسرے کیلئے محبت و اتفاق ہو تو ہم بڑی سے بڑی قوت کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر بات کر سکتے ہیں لیکن ایسا نہیں ہے مجھے افسوس ہے کہنے دیں کہ ہماری آج کی شکست خوردہ تاریخ ہماری آنے والی مستقبل کی نسل کو کیا حقیقت بتائے گی۔ بے شک مسلم اُمہ میں جتنی اتحاد کی آج ضرورت ہے اس سے پہلے کبھی نہ تھی، ہمیں اگر اپنے پاﺅں پر کھڑے ہونا ہے تو ایک دوسرے کو معاف کرنا ہوگا، مسلم اُمہ کی اور پاکستان کی سلامتی اسی میں ہے، آئیے مل کر عہد کریں کہ دن بھر کتنا بھی مصروف گزاریں ، رات کو سونے سے قبل اپنا محاسبہ خود کریں کہ ہم نے دن بھر میں دنیا جہان کی ضرورتیں پوری کرنے کیلئے تو بہت کام کیا لیکن اپنی ذات کے لیے کیا کچھ کیا ، اپنی ذات میں کونسی مثبت تبدیلیاں پیدا کیں ، اپنے اخلاق کو کس حد تک دوسروں کے ساتھ اچھا کیا ، اگر ہم سونے سے قبل اپنے تمام جھگڑوں ، اختلافات کو ختم کریں اور لوگوں کی کوتاہیوں ، غلطیوں کو معاف کرکے سوئیں تو بے چینی کو ہمارے پاس سے بھی گزرنے کی ہمت نہ ہو، اللہ تعالی ہم سب کو اپنا محاسبہ خود کرنے کی توفیق عطا فرمائے ۔