لاقانونیت کا راج یہاں وہاں!

0
197
کامل احمر

کامل احمر

صدر ٹرمپ کے خلاف میڈیا کی جنگ جاری ہے اس وقت ٹرمپ صاحب تین محاذ پر لڑ رہے ہیں۔نمبر ایک ڈیموکریٹک کنٹرول بڑے شہروں میں لاقانونیت ہنگامہ آرائی جس سے امن پسند شہری بھی تنگ ہیں، نمبر دو وائرسCovid-19جو بڑے شہروں میں بڑھتا چلا جارہا ہے جس میں فلوریڈا، ہیوسٹن، ٹیکساس پیش پیش ہیں، اس کی بڑی وجہ امریکی عوام کی ہٹ دھرمی اور بے احتیاطی ہے کہ وہ پارٹی اور سمندر کے ساحلوں پر ہلا گلا کر رہے ہیں بغیر ماسک کے تیسری پرابلم معیشت ہے جو بری طرح ہر شعبہ اور ہر طبقے کے افراد کو متاثر کر رہی ہے۔شوبزنس سے لے کر ریستوران کاروں کی فروخت سے گھروں کی فروخت تک ایک اچھی خبر آئی ہے کہ آکسفورڈ نےCovid-19کی ویکسین بنالی ہے اور یہ انجکشن تجربہ کے تیسرے مراحل سے گزر چکا ہے اور اس دہری مدافعت ہے یہ بھی خبر ہے کہ مارکیٹ میں یہ ویکسینVACCINE(ٹیکہ)دسمبر سے پہلے اور اگر کوئی رکاوٹ نہ ہوئی تو2021کے اوائل میں عام صارفین کے لئے دستیاب ہوگی۔سب سے پہلے اس کا استعمال آفت زدہ آبادی میں ہوگا۔صدر ٹرمپ نے پہلے ہی تین سوملین یعنی تیس کروڑ ٹیکوں کا آرڈر دے دیا ہے۔
ابھی تک امریکہ کی تقریبا32کروڑ کی آبادی میں140ہزار اموات کرونا وائرس سے ہوچکی ہیں نیویارک کا نمبر ایک ہے اسکے علاوہ لاکھوں لوگ اس کی زد میں آکر ہسپتالوں اور گھروں میں علیحدگی لئے ہوئے ہیں۔جیسا کہ ہم نے پہلے کہا تھا ہر انسان کو اللہ نے شعور دیا ہے کہ اسے اس وبا سے بچنے کے لئے کیا کرنا ہے۔تیسری دنیا کے ممالک میں بچاﺅ کرنا مشکل ہے لیکن یہاں کے تعلیم یافتہ لوگ لگ رہا ہے وہCovid-19کو ڈونلڈ ٹرمپ سمجھ کر حفاظتی تدابیر کے مخالف ہیں، بڑے شہروں جن میں سیاٹل(واشنگٹن) میامی بیچ، شکاگو،ہیوسٹن، نیویارک پیش پیش ہیں وہاں ڈیموکریٹک میئر احتجاج کرنے والوں کے نرغے میں ہیںاور انہیں اپنی من مانی کرنے دے رہے ہیں ایک ایسا منظر دکھاتے چلیں کہ نیویارک سٹی کے سٹی ہال(میئر کا آفس) کے اردگرد دیواروں پر تشدد پسند احتجاجی لوگوں نے اسپرے پینٹ سے اپنی فنکاری کے جوہر پولیس کی موجودگی میں دکھائے ہیں اخباری اور میڈیا کے نمائندے نے پوچھا یہ تو لاقانونیت ہے اس کو روکنا چاہئے پولیس کا جواب تھا میئرآفس سے ہدایت ہے انہیں کچھ نہ کہو۔اسکے علاوہ جگہ جگہ بڑے شہروں میں فیڈریٹ شخصیتوں کے مجسمے مسمار کئے جارہے ہیں،سرکاری عمارات، ہائی ویز، ہرجیز(BRIDGES)ایئرپورٹ، فٹبال کی ٹیمیں اور بہت کچھ تبدیل کیا جارہا ہے۔
ہم نے ایک گورے احتجاجی سے پوچھاBLACK LIVES MATTERکے تحت یہ سب کچھ ہورہا ہے اس کے بعد کیا ہوگا۔ملازمتوں کا حصول ہیلتھ کیئر تعلیم(پیشہ ورانہ)کا حصول یہ مسائل کیسے حل ہونگے جواب تھا۔WHO CARESاسکی پرواہ کیا۔یہ امریکہ کی نئی اور جوان نسل ہے جن کے لئے انکے پرکھوں نے اس تین ہزار لمبے اور براعظم کو دن رات کی محنت سے گل وگلزار بنایا ہے۔جس میں یہ آزادی کا سانس لیتے ہیں۔اور ہر مہذب ملک کا شہری اپنی آزادی کو سنبھال کر رکھتا ہے لیکن آج کا نوجوان بے خبر وہ یا تو سیاستدانوں کا آلہ کار ہے جو الیکشن جیتنے کے لئے اپنی حدیں پار کرتے ہیں تیسری دنیا سے پہلی دنیا تک
ڈونلڈ ٹرمپ نے تو یہاں تک کہہ دیا کہ شکاگو میں جو خلفشاری اور احتجاجی تشدد ہے وہ افغانستان سے بدتر ہے کہاوت ہے یہ نہ دیکھیں کون کیا کہہ رہا ہے اس پر غور کریں کیا کہہ رہا ہے ہر چند ڈونلڈ ٹرمپ کے مخالفوں کی لسٹ بڑی ہے انکی حماقتیں بھی کم نہیں انکے بیان بھی چنگاری کا کام کرتے ہیں لیکن انکا یہ کہنا غلط نہیں کہ جہاں لاقانونیت جاری ہے۔وہاں قانون نافذ کرنے والوں کو بھیجا جائیگا۔جس کے تحت نیشنل گارڈ کو ذمہ داری دی گئی ہے جیسا کہ ہم نے کہا کہ سیاست دان اپنے مقاصد کے لئے کچھ بھی کر سکتے ہیں۔
پاکستان کی سیاست اور اس کی زد میں آئی جمہوریت ایک زخمی فاختہ ہے جس کے پر نوچے جارہے ہیں اور وہ تڑپ رہی ہے نہ ہی اندرونی طور پر امن اور قانون کی بالادستی ہے اور نہ ہی ہماری خارجہ پالیسی میں کوئی جان ہے یہ خبر آپ نے بھی سنی اور پڑھی ہوگی کہ شہرہ آفاق جاسوس جس نے اعتراف جرم بھی کیا ہے مہینوں بلکہ سالوں سے حفاظتی قید میں ہے انڈیا والے احتجاج کر رہے ہیں کہ ملنے جلنے کی پابندی ہے تو ان کو خوشخبری دی گئی ہے۔کہ ہائیکورٹ میں کلبھوشن اپنی سزا کے خلاف اپیل کرسکتے ہیں۔اور وہ دن دور نہیں جب آپ سنیں گے کہ انہیں دو تین توپوں کی سلامی کےساتھ ہندوستان کے حوالے کیا جائیگا۔لیکن انکی قید میں ہمارے ایک کرنل کے بارے میں کوئی خبر نہیں۔سرحدوں پر آئے دن کڑئیل فوجی جوانوں کے بے جان باڈیز ہندوستانی فوج کی جارحیت کے نتیجے میں آتی ہیں لیکن باجوہ صاحب نہایت امن پسند ہیں وہ ایک ایسے شیطان کو اپنے شریفانہ رویئے سے انسان بنانا چاہتے ہیں جن کے لئے گائے کا پیشاب پینا عین متبرک ہے وہ بھول جاتے ہیں کہ عادی مجرم عادی مجرم ہی رہتا ہے۔مودی ایک شیطان ہے اور اس کی پشت پر امریکہ اور اسرائیل ہے۔
پاکستان کی سیاست اندرونی یا بیرونی میں وہ ہی کچھ ہو رہا ہے جو ہم ترکی کے ڈرامے الطغرل میں دیکھ رہے ہیں کچھ نہیں کہا جاسکتا کہ یہ250سے زیادہ قسطوں کا سیریل پاکستانی سیاست اور انکے بدمعاش کرداروں سے متاثر ہوکر لکھا گیا ہے یا پاکستانی سیاست سیریل سے متاثر ہے یہ کہنا غلط ہوگا کہ ہماری سیاست کیسی سے متاثر ہے اور کردار کسی بھی سیریل کاحصہ ہیں۔پاکستان کی کہانی میں اللہ رسول برائے نام ہیں اور کوئی بھی ”ابن غرابی“نہیں نتائج کیا ہونگے۔یقیناً عثمانیہ حکومت بننا تو خواب ہی رہے گا۔البتہ یہ کھیل بڑے اداروں کی نگرانی میں جاری رہے گا۔Covid-19چلا جائیگا لیکن ناانصافی اور لاقانونیت بڑھتی رہے گی۔
٭٭٭٭

LEAVE A REPLY

Please enter your comment!
Please enter your name here