کرونا وائرس سے جہاں دنیا بھر میں تباہی آئی اور لاکھوں کی تعداد میں انسان لقمہ اجل بنے ،کوئی بھی ملک اس خطرناک وبا سے محفوظ نہ رہا، معمولات زندگی معطل ہوگئے ،کاروباری زندگی رک گئے ،یہ وبا پانچویں مہینے میں داخل ہوگئی ،کئی ممالک سے اس موذی وبا کا خاتمہ ہوگیا اور کئی ابھی تک حالت لاک ڈاﺅن میں ہیں، امریکہ میں اموات ایک لاکھ ساٹھ ہزار سے زیادہ ہوگئیں اور متعدد ریاستوں میں کرونا وائرس دوبارہ پھیل رہا ہے ،اس وبا سے جہاں ناقابل تلافی نقصان ہوا وہاں کئی اچھی خبریں بھی دیکھنے اور سننے کو ملیں دنیا میں جہاں کہیں بھی معصوم لوگوں پر لاک ڈاﺅن اور کرفیو سے قتل غارت اور تشدد کیا جارہا ہے۔ لاک ڈاﺅن کا مشاہدہ کرنے کو ملا دوسرا معروف زندگی میں ٹھہراﺅ آیا جو کاروبار کبھی رکے نہ تھے ،اس کو سانس لینے کا موقع ملا ٹریفک کم ہونے کی وجہ سے حادثات میں کمی آئی دنیا کے بیشتر انسان گھروں کا کھانا شروع ہوگئے جس بیماریوں میں کمی آئی ٹریفک نہ ہونے کی وجہ سے دھواں اور پلوشن کم ہو اور الرجی کی بیماریوں میں کمی آئی فضائی آلودگی ختم ہوگئی اور سینکڑوں میلوں سے علاقے صاف نظر آنے لگے۔آئی ٹی کی سہولت اور جدید ٹیکنالوجی کی وجہ سے امریکہ میں اسی فیصد لوگ گھروں سے کام کرنے لگے جو آج تک جاری ہیں امریکہ میں تمام محکموں اور کاروباری اداروں نے کمپیوٹر ٹیکنالوجی کا خوب فائدہ اٹھایا جس کی وجہ سے کمرشل پراپرٹی کی قیمتیں بھی گرنے لگیں ۔کرونا وائرس پانچویں ماہ میں ہے تمام کی تمام کی میٹنگز روم اور دیگر ایکٹرونک ذریعوں سے ہو رہی ہیں، امریکہ میں پاکستانی سفارت کاری بھی زوم یعنی ورچول ہو رہی ہیں اور یہ میٹنگز اور سفارت کاری خوب کامیابی سے جاری ہے واشنگٹن میں پاکستانی سفارت خانہ کے جو شعبے اہم ہیں جن کاکسی نہ کسی صورت پبلک ڈیلنگ اور دفاع سے واسطہ ہے۔ ایک ویزا پاسپورٹ آفس اور دوسرا دفاعی معاملات کا شعبہ یعنی اگر سفیر پاکستان کے ساتھ ویزا پاسپورٹ سیکشن اور دفاعی شعبہ موجود ہوں تو پوری کی سفارت کاری کامیابی سے چلائی جاسکتی جس کا واضح ثبوت کرونا وائرس کے دوران موجود ہے۔ پورے کے پورے معاملات آن لائن زوم یا دیگر جدید ٹیکنالوجی کے ذریعے ایک دوسرے سے دور بیٹھے کامیابی سے چلائے جا رہے ہیں جس کا کریڈٹ سفیر پاکستان کو جاتا ہے۔واشنگٹن میں پاکستانی سفارت خانے میں ایک سو سے زیادہ اہلکار کا اپنی ذمہ داریاں کے لئے تعینات ہیں، ان ایک سو اہلکاروں میں بیس کے قریب آفیسر اور دیگر امور کے لئے پچھلے گریڈز کے اہلکار موجود ہیں، ان کی تنخواہیں اور گھروں کے کرایوں پر پاکستان کا تقریباً دس کروڑ روپے ماہانہ خرچہ آتا ہے اور دیگر چار قونصلر جنرل آفیسر نیویارک لاس اینجلس ہیوسٹن اور شکاگو میں پچاس پچاس ملازمین موجود ہیں جن پر حکومت پاکستان تقریباً بیس کروڑ روپے ماہانہ اخراجات ہیں اگر ہم تمام سفارتی دفاتر کوچلائیں تو تیس کروڑ روپیہ ماہانہ اخراجات ہیں یعنی ایک کروڑ روپیہ یومیہ ہر پاکستان امریکہ میں سفارتی ذمہ داریاں سرانجام دے رہا ہے ،اس رقم میں وہ آمدنی شامل نہیں جو ویزا اور پاسپورٹ کی فیس کی مد میں آتی ہے اور کمیونٹی فنڈز کے کروڑوں روپے جو جن میں پانچ ماہ میں ایک روپیہ بھی خرچ نہیں ہوا رقوم بھی شامل نہیں ہیں، گاڑیوں کی ٹیلیفون اور گاڑیوں کی مینٹنس شامل نہیں ہے ،ان اعداد وشمار میں تھوڑی کمی بیشی ہوسکتی ہے اور یہ اعداد شمار عرض کرنے کا مقصد ہے ،جب تمام تر معمولات زندگی آن لائن چل رہے ہیں اور بڑی کامیابی سے چل رہے ،سفیر صاحب ویزا پاسپورٹ آفس دفاعی معاملات کا شعبہ نکال کرتمام تر اہلکار پاکستان سے آن لائن کام کرسکتے ہیں جس سے وطن عزیز غریب لوگوں کا پیسہ بچ سکتا ہے ،امریکہ میں سفارت کاری پر ایک کروڑ روزانہ صرف ہوتا ہے، اس کا آدھا بھی بچا لیا جائے تو سالانہ اربوں روپے کی بچت ہوسکتی ہے جو پاکستان میں کام آسکتے ہیں۔ اس تحریر کا مقصد کسی سفارتکار یا بڑے آفیسروں یا نیچے کے سرکاری اہلکاروں کو نقصان پہنچانا نہیں ہے بلکہ وزیراعظم عمران خان اور وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی کو درخواست اور مشورہ ہے۔ان اقدامات سے پاکستان کی سفارت کاری بھی بہتر ہوگی ویزہ پاسپورٹ فیس کی آمدنی بھی سرکاری خزانے میں آئے گی ۔کروڑوں کا کمیونٹی فنڈ بھی بچ جائے گا اور امریکہ میں سفارت کاری کے اخراجات ایک کروڑ یومیہ سے چند لاکھ یومیہ رہ جائیں گے۔