وطن ! اپوزیشن کدھر ہے کہاں ہے؟

0
126
سردار محمد نصراللہ

سردار محمد نصراللہ

قارئین وطن ! کچھ دن ہوتے ہیں میں ایک ٹی وی ٹاک شو پر عارف نظامی اورشیری رحمان کی کشمیر پر گفتگو سن رہا تھا۔ موزوں تھا کہ پرائم منسٹر عمران خان نے پاکستان کے نئے نقشہ کے حوالے سے قوم کو اعتماد میں لینا تھا اور قوم کو خوشخبری دینی تھی کہ جو کام 70سال پہلے ہونا چاہئے تھا یعنی مقبوضہ کشمیر جس کو بھارت جبراَ ہڑپ کر چکا تھا اصل میں وہ تو پاکستان کا حصہ ہے لیکن اب دنیا کو یہ بتانا مقصود ہے کہ دراصل یہ ہمارا حصہ ہے لیکن اس خوشی کے موقع پر جب قوم علامتی ہی سہی عمران کے اس بہادرانہ اقدام پر خوش ہے اور ان کے اندر آزادیِ کشمیر کی ایک نئی تحریک جنم لے رہی ہے ،نام نہاد اپوزیشن کو مروڑ اٹھ رہے ہیں اور وہ اس خوشی کو اپنے مزموم ارادوں سے کہ عمران خان نے اپوزیشن کو اعتماد میں نہیں لیا اور اس کی کشمیر کی پالیسی بلکل ناکام ہو چکی ہے جبکہ قوم علامتی ہی سہی مقبوضہ کشمیر کو پاکستان کے نقشہ میں شامل کرنے پر بے انتہا خوش نظر آتی ہے۔قارئین وطن! یہاں سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ اپوزیشن کہاں ہے، اپوزیشن لیڈر جس کو شہباز شریف کہتے ہیں وہ کون ہے اور کیا ہے۔ ا±س کے بعد بلاول زرداری کا کیا رول ہے جس کو بانسوں پر کھڑا کیا ہوا ہے تاکہ وہ اپنے قد سے بہت اونچا نظر آئے ۔ شہباز جو کرپشن میں اوپر سے نیچے لتھڑا ہوا ہے جس کا ایک ایک سانس ٹی ٹیوں میں پھنسا ہوا ہے جو ریاستِ پاکستان کے لئے ندامت کا نشان ہے اور دوسرا بلاول موصوف جو اپنی ماں اور باپ بے نظیر اور آصف زرداری کن کن کرپشنوں کی پیدا وار ہے ان کو اپوزیشن کہتے ہیں جن کو عمران نے ایک ا چھے کام کے لئے اعتماد میں نہیں لیا تو بہت اچھا کیا ہے ۔ اس سے بڑی پاکستان کی بدقسمتی کیا ہو گی یہ سیاسی لنگڑے لولے ہماری۔ سیاست کا کردار ہیں شیری رحمان کو اور عارف نظامی جو حکومت کے خلاف اس کے منہ میں اپنے الفاظ ڈال کر اپنی نفرت کو پروان چڑھا رہا تھا اور نواز اور شہباز کے لفافائی قرضوں کا بوجھ اتارنے کی کوشش کر رہا تھا تاکہ اس کے ماسٹر خوش ہو جائیں ۔ ایسی اپوزیشن اور عارفی کرداروں سے بہتر ہے کہ پاکستان کو ان سے پاک کیا جائے یہ وہ کتے ہیں جو ریاست پاکستان کے کنوئیں میں گرے ہوئے ہیں اور اس کو اپنی لعنتوں سے گندا کیا ہوا ہے اب وقت آگیا ہے کہ پانی کے ڈول پینکھنے کہ بجائے ان کتوں کو نکال باہرپھینکا جائے۔ قارئین وطن! ایک اور نقطہ جس کو ہمیں سمجھنے کی ضرورت ہے وہ یہ کہ کرپٹ لوگوں پر منحصر ہے اس کی وجہ سے ان لوگوں کو نیب طلب کرتی ہے ان میں کون ہے جن کو نیب بے وجہ طلب کرتی ہے لیکن حامد میر، عارف نظامی، مجیب الرحمان شامی ، اور اس کماش کے صحافی یہ تاثر دینے کی کوشش کرتے ہیں کہ یہ سب بے گناہ لوگ ہیں اور عمرانی حکومت ان کو انتقامن طور پر نیب کے چکروں میں الجھا کر اپنی کمزوریوں پر پردہ ڈال رہی ہے ۔ جبکہ ایسی بات نہیں ہے جنہوں نے تیس پینتیس سالوں سے قوم کو لوٹا لوٹا اور لوٹا ہے اور ریاست کو سیکوئیرٹی نقصان پہنچانے کہ علاوہ اور کیا کیا ہے ان کو نیب اور جیلوں میں ہونا چاہئے لیکن افسوس کے نیب اپنا کام مکمل طور پر نہیں کر سکی ا±س کی پراسیکیوشن اتنی کمزور ہے کہ اب تک وہ کسی بڑے مگر مچھ کو ان کے جرموں کی سزا نہیں دلوا سکی جس کی وجہ سے دن رات حکومت کی سبکی ہو رہی ہے اور ان لفافہ بردار صحافیوں کو نیازی نیب کھٹ جوڑ جیسے الزام لگانے کا موقعہ ملتا ہے اگر کوئی کہتا ہے کہ خواجہ برادران، شریف برادران، چوہدری برادران ، زرداری خاندان ، مولوی فضل الرحمان اور دیگر ان جیسے ہماری سیاست کے بد نما داغ کرپٹ نہیں ہیں تو وہ احمقوں کی جنت میں رہتے ہیں۔ خدارا یہ سب لوگ کرپٹ اور خائین ہیں ان کو چھوڑنا اور آزاد کرنا قوم کو آز دھا کے سامنے چھوڑنے کہ مترادف ہو گا۔ ابھی جب کچھ دن پہلے مادرِ وطن میں وبائی حراست میں تھا تو ایک نیا نیا رنگ بدلتاصحافی جو اسلام آباد کے حلقوں میں حامد ناصر چھٹہ کا ہمدرد سمجھا جاتا تھا آجکل وہ نوازیوں کے حلقہ میں بڑے زور شور سے نظر آتا ہے کوءچوہدری صاحب ہے میرے فیس بک کے ایک چوروں کے خلاف بیانیہ پر بڑا سیخ پا ہوا اور کہنے لگا کہ شہباز نواز کے خلاف کوئی ثبوت ہے اب ایسے کھلی آنکھوں کے نابیناو¿ں کو اگر شریفوں ، خواجوں زرداریوں کی کرپشن نظر نہیں آرہی تو پھر اس کی صحافت پر لعنت ہے جو قوم کو گمراہ کر رہے ہیں شاید ان ہی جیسوں کے لئے مقسط ندیم نے کہا ہے!
اندھوں کو تو چھوڑ کہ جن کی آنکھوں میں تاریکی ہے
ان کو تو بینائی دے جن کی آنکھیں کھلی ہوئی ہیں
نیب کو اپنی کارگردگی بہتر کرنی ہو گی ورنہ عمران کی حکومت صفر بٹّہ صفر ہے ۔
قارئین وطن! رہا سوال اپوزیشن کے کردار کا تو وہ سب کے سامنے ہے ۔ آج ملک بھارتی را اور امریکن سی آئی اے اور ان کے پروردہ مختلف اندرونی اور بیرونی ایجنسیوں کے نشانہ پر ہے ہمیں ان پر توجہ دینے کی ضرورت ہے نہ کہ ان کے ٹکڑوں پر پلنے والے زرداریوں ، شریفوں پر جن سے قوم کی چھوٹی سی علامتی خوشی برداشت نہی ہوئی شیری رحمان سے پوچھنا چاہئے کہ جب بھارتی راجیو گاندھی پاکستان آرہا تھا اس وقت بے نظیر مرحومہ کیا کر رہی تھی وہ کشمیر روڈ کے بورڈ پر پردے ڈلوا رہی تھی اور نواز شریف تو آلو گوشت کے چکر میں نظریہ پاکستان کو ڈبونے کے چکر میں تھا لہٰذا خدا کے لئے وقت آگیا ہے کہ ان لوگوں سےنجات حاصل کرنی چاہئے اور اس کے ساتھ ساتھ فوجی قیادت کو بھی اپنی پالیسیوں پر نظر ثانی کر نے کی ضرورت ہے انہیں اب ایوب، یحییٰ، ضیا، اور مشرف کی پالیسیو ں سے ہٹ کر پروگیسو پالیسیاں ترتیب دینے کی ضرورت ہے اور ان کو قومی اداروں کو استحکام دینے کے لئیے حکومت کے شانہ بشانہ کام کرنے کی ضرورت ہے اور اس خائین اپوزیشن جس کی سربراہی شہباز شریف کر رہا ہے کو بیک ڈور سہولتیں دینا بند کر دینا چائیے اور اس کے ساتھ ساتھ کشمیر پر ایک ٹھوس پالیسی اختیار کرنے کی ضرورت ہے کہ کشمیری اپنی آزادی کی جنگ میں آخری سیڑھی پر کھڑا ہے جہاں اس کو ایک ایک پاکستانی کی آوازِ حریت کی ضرورت ہے اور یہ کام اسی وقت مکمل ہوں گے جب ہم ملک کو اپوزیشن میں چھپے حسین حقانیوں کو ان کو کیفرِ کردار تک پہنچائیں گے ۔
٭٭٭

LEAVE A REPLY

Please enter your comment!
Please enter your name here