جوڈیشل سسٹم میں انقلاب کی ضرورت!!!

0
310
سردار محمد نصراللہ

قارئین وطن ! میں بچپن میں جب بھی گوجرانوالہ اپنے والد صاحب سردار محمد ظفراللہ مرحوم کے ساتھ خواجہ صدیق الحسن مادرِ ملت کے میزبان اور گوجرانوالہ کی سب سے بڑی سیاسی قد آور شخصیت کو ملنے جاتا بعد آزاں اپنے خالو چوہدری اکرام اللہ زیلدار اور اْن کے صاحبزادے جو میرے بڑے بھائی چوہدری طاہر اکرام جاتے تو جیسے ہی گوجرانوالہ انٹر ہوتے تو ایک بہت بڑا منجھا پڑا ہوتا تھا اور وہ گوجرانوالہ کے رستم پاکستان یونس پہلوان ستارہ پاکستان کا تھا میں بچپن میں جب بھی گزرتا اڈہ یونس پہلوان اور اْن کے منجھے سے بڑا اسپائیر ہوتا پھر سب سے بڑا اعزاز گوجرانوالہ کا کہ یہ شیرِ پنجاب رنجیت سنگھ کی مٹی بھی ہے اور گوجرانوالہ کے ایک کْنج میں شورشِ پاکستان سلیمان کھوکھر کی آواز گونجتی ہے اور ایسی مٹی، انہی بڑے ناموں میں اور اسی شور میں ایک ایسی آواز جس کو ”چوہدری بْٹر” ایڈوکیٹ کہتے ہیں جو لاہور ہائی کورٹ بار کے صدر ہیں جنہوں نے لاہور ہائی کورٹ کے چیف جسٹس ”محمد قاسم خان”کے پر خچے اْڑا دیے حق گوئی کا ایسا مظاہرہ کیا جس کی نظیر دور دور تک نہیں ملتی بقول میرے دوست شورشِ پاکستان سلیمان کھوکھر اور سابق چیف جسٹس رانا افتخار چوہدری برانڈ حامد خان ایڈوکیٹ کی بھر پور تقریر سے پتا چلا کہ محمد قاسم خان ایک جج نہیں تھا اس ادارے کا منصف نہیں تھا جس نے ہیومن رائیٹ کا پاس رکھا اْس نے کسی حق دار کو اْس کا حق دلوایا، کسی یتیم کو جابروں کے ظلم سے نجات دلوائی اْس نے تو قوم کے ایک ہی نوالہ میں ٥٢ ارب روپے کھانے والے باپ بیٹے کو بیل دی، راتوں رات ای سی ایل سے نام نکلوایا اْسی قومی چور جس کو شہباز شریف کہتے ہیں کے سارے خاندان کو رلیف دی جن کو زندانوں میں روند دینا چاہئے تھا ”بٹر ” صاحب نے اپنے سینے پر پتھر رکھ کر اْس کے فئیر ویل ڈنر میں چیخ چیخ کے قوم کو اَس مردود کا گھناؤنا چہرہ دکھایا کہ بنچ پر بیٹھ کر نواز شریف اور اس کے حواریوں کے حواری بنے رہے ـ تم اپنے چیمبر میں بیٹھ کر نواز کے حامیوں کے لئے ووٹ مانگتے رہے تم نے اْس انسٹیٹیوٹ کی توہین کی ہے۔ کہتے ہیں مقصود بٹر صاحب کی اس بے باقی نے ہائی کورٹ لاہور کے علاوہ اسلام آباد ہائیکورٹ اور ملک کی دیگر کورٹس میں ایک نئی روح پھونک دی میری بد نصیبی کے کاش میں بھی وہاں موجود ہوتا گوجرانوالہ مٹی کے اَس شیر اِ س مرد مجاہد کے گلے میں اپنے وجود جتنا ہار ڈالتا جب بھی کوئی ایسا شیر ہائی کورٹ میں دھاڑتا ہے وہ مجھ کو اپنا لگتا ہے ـ اللہ پاک مقصود بٹر صاحب کو کامیابیوں کی بلندیوں پر پہنچائے ـ میں شورش پاکستان سلیمان کھوکھر کا بھی مشکور ہوں کہ انہوں نے بٹر صاحب کے کارنامے کا مجھ کو بتایاـ میں رانا رمضان جو کسی زمانے میں رانا افتخار کو سر پر بٹھائے پھرتے تے انہوں نے حامد خان کی تقریر مجھ کو ارسال کی اور میں ے اْس کے اندر ایک تبدیلی دیکھی کہ وہ بھی مقصود بٹر کے فین نکلا ۔
قارئین وطن! جہاں ہمارے جوڈیشل سسٹم میں ایک زبردست انقلاب کی ضرورت ہے وہاں ہماری بار کونسلز میں بھی ایک انقلاب کی ضرورت ہے چونکہ میں بچپن سے دیکھ رہا ہوں کہ جو بھی حکومت ہوتی ہے وہ بار کونسلز میں اپنے اثر رسوخ قائم کرنے کے لئے وکیلوں کو ججی اور قومی اداروں میں لیگل اڈوائیزری کی لالچ دیتے ہیں جس کی وجہ سے وکلا سیاسی پارٹیوں کے دھڑے بنا کر حکومتوں کے خوشنودی حاصل کرنے میں جْت گئے اور جو ماخذ ہے بار کونسل کا اْس سے دور ہو گئے ہیں یہی وجہ ہے کہ آج بار کونسل کا الیکشن ہزاروں سے لاکھوں اور کروڑوں روپے میں چلا گیا جس کی وجہ سے ٹیلنٹ ختم ہو کر ججوں کے ٹاؤٹوں نے لے لی میں حیران ہوں کے مقصود بٹر صاحب اس سیاہ دور میں جہاں چیف جسٹس قاسم خان کی موجودگی میں جو اپنے ٹاؤٹ کو آگے لانے کے لئے اپنے چیمبر کو استعمال کرتا رہا میں اْن وکلا کو سلام پیش کرتا ہوں جنہوں نے اْن کو منتخب کر کے بار کی عزت بحال کی۔
قارئین وطن! اب پھر سپریم کورٹ بار کے الیکشن سر پر ہیں ایک طرف بیریسٹر بون ہے اور دوسری طرف حامد خان کے گروپ میں مقابلہ ہے حامد خان کا اْمیدوار لطیف کھوسہ ہے اور دوسری طرف بون ہے مزے کی بات دونوں کا تعلق پیپلز پارٹی سے ہے جو بھی جیتے گا وہ آصف زرداری کی گود میں گرے گا اَب آپ خود اندازہ لگائیں کہ وکیل جو سوسائیٹی کا روشن خیال طبقہ ہے وہ اِن دونوں میں سے جو بھی جیتے گا وکلا برادری اور سوسائیٹی کی کیا خدمت کرے گا سوائے اِس کے کہ وہ اپنے چند سپوٹروں کو لیگل ایڈوائیزی کی نوکری پر معمور کردے گا اور اس کا نتیجہ ہمارے سامنے نیب کی پراسیکیوشن جیسا نکلے گا کہ جن کو نواز شریف، شہباز شریف، خواجہ سعد رفیق، احسن اقبال ، خواجہ آصف ، شاہد خاقان عباسی ،سلمان شہباز ، حمزہ شہباز اِن کے خاندان کے دیگر افراد اور اسی طرح آصف زرداری ، بلاول بھٹو اور ان کے حواریوں کی طویل لسٹ کی کرپشن نہیں ملی اور اِس کی سب سے بڑی وجہ کہ ہمارے لیگل سسٹم کو اِن چوروں اور ڈاکوں نے نا اہل لوگوں کو بار کونسل کے عہدیدار چن کر برباد کر دیا ہے ـ میری وکلا برادری سے اپیل ہے کے اِس مقدس پیشہ کی حرمت کو بحال کریں اور بون اور لطیف کھوسہ کے بجائے قابل اور نان پارٹیزن وکلا ساتھیوں کو الیکشن میں کامیا ب کروائیں جو جوڈیشل وقار کو اعلیٰ مقام عطا کریں ـ پاکستان بار کونسل جو جوڈیشل سسٹمْ کا کسٹوڈئین ہے اور تمام ہائی کورٹس کی بار کونسلوں کو چاہیے کہ ایک ایسا پلیٹ فارم ترتیب دیں جو اْن ججوں کے متضاد فیصلوں پر نظر رکھیں اور محمد قاسم خان اور فائیز عیسیٰ اور صدیقی ٹائپ ججوں پر مکمل طور پر کڑی نظررکھے پھر شاید ہمارے جوڈیشل سسٹم میں انقلاب پیدا ہو اور ہر طبقہ کو انصاف کی اْمید ہو ـ
٭٭٭

LEAVE A REPLY

Please enter your comment!
Please enter your name here