دوسروں کیلئے زندگی آسان کیجئے!!!

0
132
شبیر گُل

“بس کہ دشوار ہے ہر کام کا آسان ہونا
آدمی کو بھی میسر نہیں انسان ہونا
اسلام،انسان دوستی اور عظمت انسانیت کا علمبردار ہے۔ اسلام نفرت، قتل و غارت نہیں۔امن ، سلامتی ،عزت و احترام اور محبت کا درس دیتا ہے۔ سب انسان مٹی سے بنے ہیں۔ رسول اللہ نے فرمایا کسی کو کسی پر فوقیت حاصل نہیں۔اچہاعمل وکردار آدمی اور انسان میں فرق کرتا ہے۔ خضرت آدم کی اولاد کو آدمی کہا اور بولا جاتا ہے۔ آدمیت کی کئی اقسام ہیں۔ جن پر پھر کبھی لکھوں گا۔خضرت انسان کا ذکر اللہ نے اپنے پسندیدہ بندوں میں کیا ہے۔ انبیاء،رسول ،صلحاءانسانیت کی بلندیوں پر پہنچے ، جن کے کردار کا ذکر اللہ نے قرآن میں اپنا دوست کہہ کر کیاہے۔ پھر قرآن میں انسان نماءحیوان ،جیسا کہ!
فرعون ، نمرود، شداد، ابوجہل ،ابولہب،کا ذکر انتہائی ناپسندیدہ لوگوں میں کیا ہے۔ یہ وہ لوگ تھے جو اپنے اپنے ادوار میں آدمی نما جانور تہے۔ خدا کی خدائی کو چیلنج کرنا انکا جرم رہا۔ ایسے ہی شیاطین موجودہ اور گزشتہ ادوار میں رہے۔ اور اب بھی موجودہیں۔ جارج بش،نیتن یاہو،نریندر مودی جیسے دردندے، انسانیت کے قاتل ہیں۔ جنہوں نے گزشتہ چار دھائیوں میں انسانیت کو تہہ تیغ کردیا۔ مگر یہ سفاک تہذیب و تمدن کا دعوی بھی کرتے ہیں۔ لیکن ہم ظلم ، وحشت و بربرئیت پر خاموش ہیں۔
اے آسمان تیرے خدا کا نہیں ہے خوف
ڈرتے ہیں اے زمین تیرے آدمی سے ہم
قارئین ! زمین پر انسان سبحان اللہ پڑھنے کے لئے نہیں آیا، اللہ اللہ کرنے کے لئے نہیں آیا ،فرشتہ بننے کے لئے نہیں آیا۔فرشتے نے تو تجھے سجدہ کیاہوا ہے۔ جس نے مجھے سجدہ کیا ہے میں ویسا بننے کی کوشش کروں۔اللہ نے انسان کو زمین پر خلیفہ بنا کر بھیجا ہے۔ دنیا پر شیطان کی حاکمیت ہو، شیطان کے چیلے فساد پھیلا رہے ہوں۔خضرت انسان کو کوئی غرض نہیں ہے اس سے۔ہم ظلم کے خلاف ہاتھ پر ہاتھ دھرے بیٹھے رہیں ۔لاشے بچھ رہے ہوں ، ظلم و ناانصافی عام ہو۔ اقتدار و اختیار کی ہوس نے انسانوں کو انسانوں کے خون کا پیاسا بنا دیا ہے۔ کہیں مذہب کے نام پر سر سے تن جدا کئے جا رہے ہیں۔ کہیں عزتیں پامال ہو رہی ہیں۔ تو کہیں بچے اور بچیاں غلاظت کی بھینٹ چڑھ رھی ہیں۔ انسان خدا بنا پھرتا ہے۔ آج انسان کو خدا بننے کے لئے فرعون جیسا اقتدار نہیں چاہئے۔اس دور میں تو خضرت انسان کرائے کی گاڑی میں بیٹھ کر پیدل چلنے والے بندہ خدا کو انسان کا درجہ دینے کو تیار نہیں۔کیا انسان کو اللہ نے اپنا نائب اور خلیفہ اسی لئے بنایا تہاکہ وہ اپنے حصار میں قید ہو کر انسانوں پر جبر کرتاپھرے۔یہ خلافت کا تقاضا نہیں ہے۔ خلیفہ کو دنیا میں یہ کام کرنے ہوتے ہیں۔ بندگی رب،زمین پر ایک صالح انسانی تمدن ،سولائزیشن کا قیام۔زمین کا حسن انتظام ، زمین کی مینجمنٹ ،کائناتی قوتوں کے راز معلوم کرنا، اور ا±ن قوتوں کو قابو کرکے زمین کا انتظام چلانا۔اللہ رب العزت نے یہ دنیا اپنی مخلوق کے لئے بنائی۔اور تمام مخلوقات میں سے اسے اشرف المخلوقات کے مرتبے پر فائز کردیا۔انسانوں کو رہن سہن کے طور طریقے سمجھائے۔قدرت نے آہستہ آہستہ اس میں اختیار منتقل کرناشروع کیا۔ جیسے جیسے اسے دنیا میں میں رھنے کی سمجھ آتی گئی اس نے خود کوہی کائنات کا مالک سمجھنا شروع کردیا۔نا رشتوں کی پہچان نا منصب کا لحاظ۔اقتدار گھر میں ہو یا کارخانہ میں ،یا ملک کی باگ ڈور ،عمل بتائے گا کہ آپ انسان ہیں یا جانور ،اللہ نے آدمیت کو انسانیت سونپ کر بہت بڑا احسان کیا ،مگر یہ نہیں بھولنا چاہئے کہ اللہ رب العزت ہی اقتدار اعلی کا مالک ہے۔
آج اقتدار و احتیار کی ہوس نے ہمیں اندہاکردیا ہے۔ ہر انسان میں کسی نہ کسی درجہ انا یا میں کا عنصر موجود ہے۔ جو ہمارے اندر( کبر اور انانیت )پیدا کرتا ہے۔ ہم دوسروں کو اپنے سے کمتر سمجھتے ہیں۔
اپنے اعمال پر نظر ڈالے بغیر دوسروں کی عیب چینی کرتے ہیں۔ ہم اپنے گھر میں ہوں یا اقتدار کی مسند پر ، ہمارے روئیے بتاتے ہیں کہ دماغی طور پر ہم صحت مند ہیں یا بیمار۔ ایک صحت مند شخص ہمیشہ مثبت سوچتا ہے۔ مثبت سوچ ذہنی عقل و شعور کی عکاس ہوا کرتی ہے۔ ہمارے اندر فرعونیت اور یزیدیت آچکی ہے۔ ہم لوگوں کواذیت دینا پسند کرتے ہیں۔ اپنے اندر ہزاروں ب±رائیوں کے باوجود دوسروں کی ب±رائیاں تلاش کرتے ہیں۔ جو اللہ کو ناپسند ہے۔ ہمارے رویوں میں یزیدیت ہے، ہم ذہنی سفاکیت کے علمبردار بن چکے ہیں۔ یزیدیت دراصل ذہنی سفاکی کا دوسرا نام ہے۔ حسینت قربانی اور ایثار کا نام ہے۔
یزید حکومت ہونے ، طاقت رکھنے کے باوجود مر چکا ہے۔ یزید کے سفاکانہ عمل کی وجہ سے کوئی اپنے بچے کا نام یزید رکھنے کی ہمت نہیں کرتا۔ امام حسین رضی اللہ عنہم ظلم سہنے کے باوجود زندہ ہیں۔ آج ہم ہر جگہ پس رہے ہیں
ہم سوچتے ہیں کہ ہم کلمہ گو ہیں ، ہم پر فلسطین، کشمیر اور شام میں ظلم ہورہاہے۔ کئی ممالک میں ظلم ہو رہاہے۔ ہم مجبور و مقفور نظر آتے ہیں۔
کیونکہ ہم ظلم پر خاموش ہیں ، چاہے وہ چھوٹا ہو یا بڑا۔گھر میں ہو یا معاشرے میں ، اللہ فرماتے ہیں کہ کفر کامعاشرہ تو چل سکتا ہے ظلم کا معاشرہ نہیں چل سکتا۔
اللہ رب العزت فرماتے ہیں کہ میں ہر چیز کو ا±س کی جگہ پر رکھتا ہوں۔ اگر ہم عدل نہیں کرینگے تو انصاف کی توقع کیوں رکھتے ہیں۔ اللہ رب العزت بے ہمت اور دوسروں پر بھروسہ رکھنے والوں کا ساتھ نہیں دیا کرتا۔رب کائنات جدوجہد اور محنت کرنے والوں کا ساتھ دتیا ہے۔ ہم ظلم کا معاشرہ قائم کریں ، اور توقع رکہیں کہ ا±سکی نصرت آے گی۔ ظلم کیخلاف کھڑے ہونا سیکھیں چاہے وہ کسی بھی نوعیت کا ہو۔پھر اللہ کی نصرت کی ا±مید رکہیں ۔ہم حکومت میں ہوں یا انفرادی زندگی میں۔ایک دوسرے کو نقصان پہنچانا۔ دوسروں پر کیچڑ پھینکنا ہماراوطیرہ ہے۔ ہمیں اس کیچڑ سے بچنا چاہئے۔
دانا کہتے ہیں کہ کیچڑ میں پتھر نہ مارو، اپنا دامن ہی داغدار ہوگا۔احتیاط کا اگلا درجہ یہ ہے کہ کیچڑ سے دور چلے جائیں ،ورنہ کسی اور کے پتھر مارنے سے بھی آپ داغ دار ہو سکتے ہیں۔ ہمارے عمل اور الفاظ کے پیچھے پوری تہذیب اور تمدن چ±ھپا ہوتا ہے۔ الفاظ کی ادائیگی اور عمل سے پہلے شائستگی کی شکل میں اپنی قیمت پاتا ہے۔ بس اتنی کوشش کیا کرو کہ کوئی آپ کی وجہ سے رب کے سامنے نہ روئے۔
ہم بھی عجیب لوگ ہیں ثواب کی خاطر مرے ہوئے انسان کوکندھااضرور دیتے ہیں۔ مگر زندہ انسان کا سہارا بننے سے کتراتے ہیں۔ جب موقع ملے دوسروں کی تضہیک کا موقع ہاتھ سے جانے نہیں دیتے۔اس لئے اپنے رویوں کی وجہ سے کچھ لوگ ہمارے سینوں میں بنا کفن کے ہی دفن ہو جاتے ہیں۔
کیونکہ ہم لوگوں کے لئے مشکلیں پیدا کرتے ہیں۔ دوسروں پر تہمت لگانا ، بے جا تکلیف پہنچانا ہمارا روزمرہ کا معمول ہے۔
کسی مضبوط پہاڑ کا اتنا بوجھ نہیں ہوتا جتنا بے قصور پر تہمت لگانے کا بوجھ ہوتا ہے۔
اپنی شخصیت کو لوگوں کے لئے ایسا بنائیے کہ انہیں آپ کی ذات سے ا±مید کی کرن مل جائے۔اپنے آپ کو لوگوں کے لئے بھلائی اور آسانی پیدا کرنے والا بنا لیجئے۔دوسرے انسانوں کے لئے مشکلات پیدا نہ کیجئے۔
تاکہ آپ کے لئے لوگ خدا سے دعاءکریں آپ کو دعاءکے لئے کسی کو کہنا نہ پڑے۔
٭٭٭

LEAVE A REPLY

Please enter your comment!
Please enter your name here