امریکی انتخابات ایک مشکل ترین مرحلہ ہے، خاص کر صدارتی انتخابات اس میں کروڑوں ڈالرز کا زیاں اور امیدوار کو انتھک محنت کی ضرورت ہوتی ہے۔اس دفعہ بھی ایسا ہی ہونے جارہا ہے سوائے ایک انوکھی بات کے کہ امیدوار ایک دوسرے پر الزام تراشی کر رہے ہیں دوسرے معنوں میں الیکشن چرانے کا الزام لگا رہے ہیں۔صدر ٹرمپ کا کہنا ہے کہ وہ ڈاک(MAIL)کے ذریعے ووٹنگ نہیں ہونے دینگے اس لئے کہ اسکی کاﺅنٹنگ میں دیر ہوسکتی ہے خدشہ ہے 20جنوری تک نہ ہوسکیں اس صورت میں قانون کی رو سے اسپیکر صدر بن سکتا ہے وقتی طور سے ایسا ہمارا کہنا ہے، دوسرے ٹرمپ کو ڈاک کے نظام پر اعتبار نہیں جب کہ پوسٹ ماسٹر جنرل نے بیان دیا ہے کہ ہم تیار ہیں اور ہمارے پاس35بلین ڈالرز مزید ہیں انکی شنوائی ہو رہی ہے کیپٹل ہل پر۔
پچھلے ہفتے20اگست کو ڈیلیو ریاست میں ڈیموکریٹک پارٹی کا کنونشن تھا جس میں رسمی طور پر امیدوار صدارتی انتخابات کی حامی بھرتا ہے اور ذمہ داری قبول کرتا ہے اور اٹیج پر آکر عوام کو بتاتا ہے اپنے ایجنڈے کے متعلق لیکن یہ کنونشن پھیکا پھیکا ثابت ہوا جوزف بائیڈین جو ڈیموکریٹک امیدوار ہیں ایک اچھے اسپیکر نہیں ہیں وہ سیدھے سادھے انسان ہیں جو40سال سے سیاست میں رہنے کے باوجود بھی تیزاور طرار نہیں بن سکے ہیں اسی لئے کمیلا ہیرس کو جس کی ماں ہندو اور باپ گیان کرسچین ہے لایا گیا ہے حالانکہ جب ڈیموکریٹک پارٹی میں صدارتی امیدوار کا چناﺅ تھا تو سب سے کم ووٹ کمیلاکے ہی تھے اس سے آپ جان سکتے ہیں کہ انکا جھکاﺅ اسرائیل کے علاوہ انڈیا کے لئے بھی ہوگا یہ انتخابات پاکستانیوں کے لئے ہمیشہ کی طرح اہم ہیں۔لیکن امریکن ہونے کے ناطے ہمیں یہ سوچنا ہے کہ کونسا امیدوار امریکہ اور عوام کے لئے بہتر ہے جس کے لئے ہم کہہ سکتے ہیں دونوں امیدوار اپنے اپنے ایجنڈے کے تحت ایک سکے کے دو رخ ہیں،کہتے چلیں کہ ڈیموکریٹک کنونشن نے عوام کے دل ودماغ پر کوئی اثر نہیں چھوڑا،کنونشن کسی ہال میں نہیں تھا اور نہ ہی کسی بڑے میدان میں جہاں لاکھوں کا مجموعہ ہو۔آج پیر کادن ہے اور ری پبلک پارٹی کا اٹیج نارتھ کیرولینا میں سجے گا،میڈیا ہٹا ہوا ہے فوکس نیوز اس کنونشن کو اُجاگر کر رہا ہے10اسپیکر میں صدر ٹرمپ کے علاوہ انکے صاحبزادے اور انڈین سکھ نژاد نکی ہیلی جو گورنر کے علاوہ اقوام متحدہ میں رہ چکی ہیں اور جو انتہائی طور پر اسرائیل کے گن گانی ہیں(کامیابی کے لئے شرط ہے)تقریر کرینگی ہم یہ کہہ سکتے ہیں کہ ڈونلڈ ٹرمپ کو سننے میں تفریح کا عنصر شامل ہوگا ویسے بھی کرونا وائرس کا فائدہ اٹھاتے ہوئے اس دفعہ سب سے زیادہ دیکھے اور سنے جانے والا شو ہوگا۔ڈونلڈ ٹرمپ جو اچھے اسپیکر ہیں اور بغیر لکھی ہوئی تقریر اور تیاری کے بے تکان دو گھنٹے بول سکتے ہیں امریکی عوام سے5وعدے کرنے جارہے ہیں، پہلا وعدہ یہ کہ وہ اگلے سال اکتوبر تک ایک کروڑ ملازمتیں فراہم کرینگے دوسرا وعدہ یہ کہCOVID-19کی ویکسین دسمبر کے آخر تک آجائیگی مطلب الیکشن کے بعد اگلے سال بھی ہوسکتی ہے۔تیسرا وعدہ یہ کہ وہ مینوفیکچرنگ کے شعبہ میں لوگوں کو واپس لائینگے جس سے دس لاکھ ملازمتیں فراہم ہونگی، انکا چوتھا وعدہ انکا ڈاکٹروں کے لکھے نسخوں والی دوائیوں کی قیمتوں میں کمی لائی جائیگی(جو ناممکن ہے کہ کمپنیوں کے دلال قانون بنانے والوں کے آگے پیچھے گھوم رہے ہیں)اپنے پانچویں وعدے میں جو انکے ایجنڈے کا حصہ ہے۔قانون نافذ کرنے والے اداروں(پولیس، شیرف) کو مالی طور پر معاونت دی جائیگی۔
پچھلی دفعہ بھی صدر ٹرمپ نے وعدے کئے تھے، صرف دیواربنانے کا وعدہ پورا کیا جس کے لئے انہوں نے اپنی پچھلی تقریر میں کہا تھا ”دیوار اور پہیہ کبھی نہیں بدلتے(WALLS & WHEFL NEVER CHANGE)ہمیں دیوار پر اعتراض ہے لیکن اندیشہ کہ انکے یہ بول حوالہ نہ بن جائے دوسری طرف بائیڈین نے کہا ہے کہ میں گھر بیٹھ کر صدارتی انتخاب جیت سکتا ہوں کیسے؟۔جب کہ دوسری جانب امریکی انتخابات کا طریقہ کار ہی غلط ہے کہ12ویں ترمیم نے موجودہ دور میں گھپلے کے مواقع زیادہ کر دیئے ہیں ہم اسے گھپلہ ہی کہینگے کہ5دفعہ پاپولر ووٹوں کو نظر انداز کرکے الیکٹوریل(انتخابی) ووٹوں پر صدر کا چناﺅ ہوا ہم لکھتے چلیں کہ1824 میں1876میں ہیز1888میں ہیریسن2000میں بش2016میں موجودہ صدر ٹرمپ اور اب کہا جارہا ہے کہ ان الیکٹوریل ووٹ کے قانون کو ختم کیا جائے پچھلے سروے کے مطابق 58فیصد رالغوں نے اس کے خلاف اپنی رائے کا اظہار کیا تھا جس کے تحت عوامی مقبولیت کا امیدوار انتخاب ہار جاتا ہے۔مختصر طور پر بتاتے چلیں کہ اگر کسی ریاست میں پاپولر ووٹ لینے والا امیدوار ا یک فیصد سے بھی کم سے ہارتا ہے تو50.009والے امیدوار کو اس ریاست کے سارے الیکٹوریل ووٹ مل جاتے ہیں۔مثال کے طور پر کیلی فورنیا جس کے الیکٹوریل ووٹوں کی تعداد55ہے میں جس امیدوار کے پاس001ووٹ بھی زیادہ ہیں تو55ووٹوں کا حقدار وہ ہی ہوگا۔ان الیکٹوریل ووٹوں کی تعداد538ہے جس میں100ووٹ پچاس ریاستوں کے50سینیٹر کے ہیں اور باقی کانگریس مین کے سوائے دو ریاستوں میں(MAINE)اور نیز اسکا(NEBRASKA)کے جہاں پاپولر ووٹوں کے حساب سے الیکٹوریل ووٹ کا تناسب ہوگا دونوں امیدواروں کو اور اب امیدوار کو معلوم ہے کہ اسے کن کن ریاستوں میں محنت کرنی ہے جن کی تعداد بہت کم ہے اور آبادی کے حساب سے ہے سب سے زیادہ الیکٹوریل ووٹ ان ریاستوں کے پاس ہیں۔کیلی فورنیا،55، ٹیکساس38، فلاریڈہ29، نیویارک29، پنسلوانیا20مشی گن16، الیانواس(شکاگو)20ان سب کو جمع کریں تو207کی تعداد بنتی ہے جیتنے والے کو270ووٹ کی ضرورت ہے۔باقی70ووٹ لینا اس کے لئے مشکل نہیں اگر وہ ہر ریاست میں بے حد کم ووٹوں سے بھی جیتے بہت سی ریاستیں ریپبلکن کے ساتھ اور بہت سی ڈیموکریٹک کے پاس ہیں اب بھی ٹرمپ کا جیتنے کا انحصار اوپر والی ریاستوں پر ہی ہے جس میں نیویارک اور فلاریڈا انکا نہیں کیلی فورنیا اگر ہاتھ سے نکل گیا تو بائیڈین کے جیتنے کے مواقع زیادہ ہیں امریکی انتخاب(صدارتی) پر دنیا بھر میں خاص کر انڈیا میں سٹہ زوروں پر ہے اور ابھی بھی کہا نہیں جاسکتا کہ الیکٹوریل ووٹ کے گھپلے سے الیکشن کون جیتے گا۔