بدلتا امریکہ!!!

0
442

بھی کھلے دل اور ذہن کا ملک بھی ہے مگر حالات ہمیشہ کبھی بھی کہیں بھی ایک جیسے نہیں رہتے میری نسل اور عمر بلکہ کئی نوجوان نسل کے لوگوں کو یاد ہوگا کہ بیس تیس سال پہلے کے امریکہ اور موجودہ امریکہ میں کتنی تبدیلیاں آچکی ہیں ایک ایک بندے نے مختلف ناموں سے کئی کئی سوشل سیکورٹی کارڈز بناکر بہتی گنگا میں غوطے لگائے اور کروڑ پتی بن گئے کئی فنکار اور خرانٹ قسم کے فنکاروں نے پراپرٹی کے بزنس اپنی مہارت کے جوہر دکھاکر اس سسٹم کو دھوکہ دیکر مال بنایا کریڈٹ کارڈز اور ٹیلی فون کے بوتھ بناکر لاکھوں ڈالر بنائے اس ملک کے ادارے جو پوری دنیا کو اپنی مٹھی میں قابو کئے رکھتے تھے اپنے ملک کے اندر فراخ دلی سے لوگوں کو کھل کر کھیلنے دے رہے تھے اور اس نظام کے بانی ہمارے قدیمی کزن تھے جو پوری دنیا کے مالیاتی نظام کو اپنی مٹھی میں رکھتے ہیں ۔اکثر لوگوں کو لیبارٹریز اور دوائیوں کے کاروبار کا بھی علم ہوگا کہ کتے ،بلیوں اور پرندوں کے خون سے لاکھوں ڈالرز کمائے گئے اس بزنس سے شاندار مساجد بھی بنائی گئیں اور وہیں پر فارمیسیوں اور لیبارٹریز کا کالا دھن سفید کیا جاتا تھا اور اب بھی کئی مقامات پر احتیاطی تدابیر کے ساتھ جاری ہے ۔لیکن نائن الیون کے بعد بتدریج ادارے حرکت میں آتے گئے اور اس نظام کو اپنے مقاصد کے لئے استعمال کرنے والے آہستہ آہستہ گرفت میں آنے لگے کچھ نکلنے میں کامیاب بھی ہوگئے،اب کورونا اور پولیس گردی کے واقعات کے نتیجے میں یہ حالت ہوگئی ہے کہ نیویارک کا معروف اور مصروف ترین مین ھٹن گھوسٹ ٹاو¿ن بن گیا ہے۔بڑے بڑے مالز یا تو بند ہیں یا ہو کے عالم میں گاہکوں کی راہ تکتے نظر آتے ہیں کسٹمر سروس والے اب فون پر ٹیپ لگا کر ایسے غائب ہوتے ہیں جیسے کبھی پاکستان کے محکمہ ٹیلی فون کا 17 ہوا کرتا تھا کبھی کوئی اٹھانے کی زحمت ہی نہیں کرتا تھا۔منی سوٹا کے بعد لوزیانا اور اتوار کے روز وسکانسن میں ایک نہتے اور بے گناہ سیاہ فام کو پولیس نے اسکے بچوں کے سامنے بھون ڈالا جہاں کرفیو کا نفاذ کردیا گیا ہے اور خدشہ ہے کہ کہیں پھر سے نسلی فسادات کی نئی لہر نہ ابھر کر سامنے آئے۔صدارتی الیکشن سر پر ہے اور دونوں پارٹیاں ابھی تک ایک دوسرے پر الزامات کی بارش جاری رکھے ہیں دونوں پارٹیوں کا منشور ابھی تک واضح نہیں ہو¿ا بھارتی خاتون اور ویسٹ انڈین امیگرنٹ کی ہونہار صاحبزادی سینیٹر کمالا ہیریس کو حالات کے جبر کے تحت ڈیمو کرییٹس نے نائب صدارتی امیدوار نامزد کردیا ہے جسے بعض حلقوں نے سیاہ فاموں پر ڈاکہ قرار دیا ہے اور کمالا کو سیاہ فام تسلیم کرنے سے انکار کردیا ہے صدر ڈونالڈ ٹرمپ نے کورونا کے باعث ڈاک کے ذریعے ووٹنگ کو فراڈ سے تشبیہ دی ہے اور دھمکی دی ہے کہ وہ ہار گئے تو انتخابی نتائج تسلیم نہیں کرینگے۔امریکہ کی معاشی حالت دن بہ دن گرتی جارہی ہے میرے جیسے ریٹائرڈ سوشل سیکورٹی پر انحصار کرنے والے بھی انتہائی مہنگائی اور اکثر اشیائ کی کمیابی اور نایابی کے بعد اس پریشانی کا شکار ہونا شروع ہوگئے ہیں کہ گرتے ریونیو سے حکومت کو سوشل سیکورٹی کی مد میں جمع ہونے والی رقوم سکڑتی جارہی ہیں جس سے معمر افراد کو انکی عمر بھر تنخواہوں سے کٹوتی کی رقم سے کمی یا محرومی کا اندیشہ ہو چلا ہے
ایک سابق وزیر خزانہ اور ممتاز ماہر معاشیات حفیظ پاشا نے اپنی کتاب میں انکشاف کیا ہے کہ پاکستان کو دہشت گردی کے خلاف اپنے اوپر مسلط کی گئی اٹھارہ سالہ جنگ میں دو سو باون بلین 252$$ڈالرز کا نقصان اٹھانا پڑا ہے جس میں امریکہ نے صرف 31 ارب ڈالرز کی تلافی کی ہے لیکن تجزیہ کاروں کا اندازہ ہے کہ کورونا سے امریکہ کو کئی سو کھرب (Trillions)کا نقصان ہو چکا ہے عام امریکی کو جو معاشی اور سماجی اقتصادی مشکلات کا سامنا ہے بدلتے حالات میں وہ دن بدن خراب ہوتے جارہے ہیں نومبر کے انتخابات تک تو جوں کے توں رہیں گے تاہم جنوری کے بعد صورت حال واضح ہونا شروع ہوگی توقع ہے کہ نئے سال نئی ریزولوشن نئے عزم سے ایک بار امریکہ کی معاشی ترقی کا دور شروع ہوگا اور عام آدمی سکھ کا سانس لے سکے گا جو تیسری دنیا کے لوگوں کے لئے صدیوں سے ایک خواب ہے وہ اس طرز زندگی کے عادی ہو چکے ہیں ۔
٭٭٭

LEAVE A REPLY

Please enter your comment!
Please enter your name here