لاہور:
پی ایس ایل فرنچائزز اور پی سی بی میں تلخیوں کی برف پگھلنے لگی جب کہ دونوں فریق مذاکرات کی ٹیبل پر بیٹھنے کیلیے تیار ہو گئے۔
فنانشل ماڈل اور بینک گارنٹی کی ادائیگی سمیت مختلف مسائل کے حل پر کوئی توجہ نہ دیے جانے پر پی ایس ایل فرنچائزز نے پی سی بی کیخلاف لاہور ہائیکورٹ سے رجوع کر لیا تھا، دونوں فریقین نے تحریری جوابات جمع کرا دیے تھے۔
گزشتہ روز فاضل جج ساجد محمود سیٹھی کی عدالت میں فرنچائزز کے وکیل احمر بلال صوفی نے موقف اختیار کیا کہ پی سی بی ملک میں کرکٹ کے فروغ کا ذمہ دار ادارہ ہے، پی ایس ایل ٹیموں کے معاملات اور مسائل بھی اسی کے تحت آتے ہیں، یہ کھیل قوم کو جوڑ کر رکھنے کا ذریعہ ہے، لیگ کے موجودہ اسٹرکچر میں عدم توازن کو ختم کرنا ضروری ہے۔ انھوں نے کورونا کی وجہ سے اسپورٹس تنظیموں کی ادائیگیاں موخر کیے جانے کی مثالیں بھی عدالت کے روبرو پیش کیں، فرنچائز فیس کے حوالے سے تحفظات بھی عدالت کے گوش گزار کیے۔
سلمان اکرم راجہ نے بھی فرنچائزز کی وکالت کرتے ہوئے کہا کہ ابھی فیس کا تقاضا معقول بات نہیں،یکطرفہ مفاد کے معاملے پر نظر ثانی کی جانا چاہیے، اسٹیک ہولڈرز کے مفادات کا تحفظ پی سی بی کی ذمہ داری ہے،موجودہ فنانشل ماڈل میں فرنچائزز مالکان مسلسل نقصان برداشت کررہے ہیں،اس صورتحال میں وہ ٹیمیں نہیں چلاسکیں گے۔
وکیل پی سی بی تفضل رضوی کے دلائل سن کر فاضل جج نے کہا کہ بورڈ کیوں فرنچائز مالکان کے ساتھ بیٹھ کر تحفظات دور نہیں کرتا،معاملہ عدالت کے باہر آپس میں بات چیت سے حل کرنے پر غور کیا جائے، تفضل رضوی نے ہدایات لینے کیلیے وقت مانگا۔
وقفے کے بعد سماعت دوبارہ شروع ہونے پر پی سی بی کے چیف آپریٹنگ آفیسر سلمان نصیر نے بتایا کہ ہم معاملات پر بات چیت کیلیے 7 اکتوبر کو فرنچائزز سے میٹنگ پر آمادہ ہیں،اس کے ساتھ ہی عدالت نے واپس لینے کی بنیاد پر درخواست نمٹا دی۔
سوشل میڈیا پر اپنے پیغام میں سلمان نصیر نے کہا کہ پہلے بھی مسائل مل بیٹھ کر حل کرنا چاہتے تھے، اب بھی ایسا ہی کریں گیے، 9 اکتوبر تک فرنچائزز کیخلاف کوئی کارروائی نہیں کی جائے گی، البتہ نادہندہ فرنچائزز نے وعدہ کیا ہے کہ 2019 اور 2020 کی واجب الادا رقوم فوراً ادا کر دیں گی۔