مہنگائی کو لگام ڈالیے!!!

0
594

 

شماریاتی رپورٹ کے مطابق ایک ہفتے کے دوران مہنگائی کی شرح 4.5فیصد بڑھی ہے۔ ایک ہفتے میں 25اشیائے ضروریہ کی قیمتوں میں اضافہ ہوا‘9کی قیمتیں کم ہوئیں اور 17اشیا کے نرخوں میں استحکام رہا۔ کراچی میں ٹماٹر کی قیمت 200روپے فی کلو تک جا پہنچی ہے جبکہ مختلف شہروں میں ایک ماہ کے عرصے میں ٹماٹر کی قیمت میں 100روپے کا اضافہ دیکھنے میں آیا ہے۔ رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ اس عرصہ میں زندہ مرغی کی فی کلو قیمت میں 26روپے‘ فی درجن انڈوں کے نرخوں میں 9روپے‘ ایل پی جی گھریلو سلنڈر میں 26روپے کا اضافہ ہوا‘ آٹے کا 20کلو کا تھیلا 4روپے 17پیسے‘ دال ماش فی کلو ایک روپے 77پیسے مہنگی ہوئی۔ اشیا کی قیمتوں میں اضافے کا جائزہ ہمیشہ طلب و رسد کی شرح کا موازنہ کرتے ہوئے کیا جاتا ہے۔ پاکستان میں آٹا‘ چینی‘ دالیں‘ سبزیاں ‘ دودھ اور گوشت مقامی ضروریات کے لئے کافی ہیں۔ بہت سی غذائی اجناس‘ پھل اور دیگر اشیائے خورو نوش مقامی ضرورت سے اضافی ہونے کے باعث برآمد کی جاتی ہیں۔ شماریات کا ادارہ ہے‘ ریونیو ڈیپارٹمنٹ ہے۔ پٹواری اور تحصیلدار ہیں جو زرعی پیداوار کا حساب رکھتے ہیں۔صنعتی پیداوار کا ریکارڈ رکھنے والے اہلکار ہیں۔ خود محکمہ زراعت اور صنعت کے پاس ایسے اعداد و شمار ہوتے ہیں جنہیں استعمال کیا جائے تو اشیائے ضروریہ کے نرخ قابو میں رکھے جا سکتے ہیں۔ ان اعداد و شمار کا تجزیہ کرتے ہوئے یہ معلوم ہو جاتا ہے کہ کتنی پیداوار ذخیرہ اندوزوں کے پاس چھپائی گئی ہے۔ تحریک انصاف کو اقتدار سنبھالتے ہی کئی طرح کی مشکلات کا سامنا کرنا پڑا۔غیر ملکی قرضوں کابوجھ‘سابق حکومت کے غیر منافع بخش میگا منصوبے‘ایف اے ٹی ایف کی تلوار‘ کشمیر پر بھارت کی پالیسی میں تبدیلی اور بعض دوست ممالک کا بدلا ہوا طرز عمل ان مشکلات کی بنیاد بنا۔ وزیر اعظم عمران خان اور ان کے رفقاءان مسائل سے نبرد آزما ہونے کی کوشش میں ہیں۔ان مسائل کا اندازہ عام آدمی کو ہے۔ پی ٹی آئی حکومت کی ان مشکلات کا سبب چونکہ گزشتہ حکومتیں ہیں اس لئے عوامی سطح پر حکومت کو عمومی حمایت مل جاتی ہے لیکن مہنگائی کو قابو میں کرنا خالصتاً موجودہ حکومت کا کام ہے جس میں وہ کامیاب دکھائی نہیں دے رہی۔ حال ہی میں معروف گیلپ سروے نے ایک رپورٹ جاری کی ہے۔ گیلپ سروے کے مطابق 85 فیصد پاکستانی کورونا کی وجہ سے آمدن میں کمی سے پریشان ہیں۔ گھر کی بنیادی ضروریات پوری کرنے کے لئے کھانا کم کھانے‘ سستی غذائی اشیا استعمال کرنے اور واقف کاروں سے مدد مانگنے کے رجحان میں اضافہ ہوا ہے۔ یہ صورت حال بتاتی ہے کہ کورونا کی وجہ سے کاروبار بند ہوئے‘ آمدن میں کمی ہوئی اور شہریوں کی قوت خرید نیچے آئی۔ ضروری تھا کہ اس امر کا خیال رکھا جاتا اور کم از کم اشیائے خورو نوش کے نرخوں میں ہونے والا اضافہ روکنے کی سعی کی جاتی۔ اس سلسلے میں حکومت اگر سبسڈی دینے کا اہتمام کرتی تو مضائقہ نہ ہوگا۔سبزی اور فروٹ منڈیوں کی سطح پر کچھ ایسے اقدامات کئے جا سکتے تھے جن سے شہریوں کو ڈیمانڈ سپلائی کی آڑ میں پریشان کرنے والوں کو روکا جا سکتا۔شنید ہے کہ چیف سیکرٹری پنجاب نے صوبے میں پرائس کنٹرول سیل قائم کرنے کا فیصلہ کیا ہے۔ چیف سیکرٹری کا کہنا ہے کہ اشیائے ضروریہ کو سرکاری نرخوں پر فروخت کیا جائے گا‘ پنجاب میں متعدد علاقوں میں سہولت بازار قائم کرنے کا اعلان بھی ہوا ہے۔ ممکن ہے یہ تدبیر کارگر ثابت ہو اور مارکیٹ کی سفاک قوتوں کے ہاتھوں استحصال کے شکار شہریوں کو ذرا دم کو سہی یہ احساس ہو سکے کہ حکومت اور افسر شاہی ان کے مسائل کا حل تلاش کرنے میں سنجیدہ ہیں۔ غذائی اشیا کی قیمتوں میں اضافے کی وجہ سپلائی چین میں تعطل، ذخیرہ اندوزی، سمگلنگ اور حکومت کی بدانتظامی ہے۔ سپلائی چین میں اتنا زیادہ تعطل آیا کہ سبزیوں تک کی قیمتوں میں بہت زیادہ اضافہ ہوا۔یک مثال ٹماٹر ہے جس کی قیمتوں میں بے تحاشا اضافہ دیکھنے کو ملا ایک ہی وجہ تھی کہ اس کی رسد میں بہت زیادہ تعطل آیا۔چینی اور آٹے کی قیمتوں کو ان کی ذخیرہ اندوزی اور سمگلنگ سے جوڑاجا سکتا ہیکہ ذخیرہ اندوز ان کی قیمتیں بڑھتی دیکھ رہے ہیں تو انھوں نے ان اشیا کی ذخیرہ اندوزی شروع کر دی۔حکومت کی گندم اور چینی کی درآمد میں تاخیربھی اس ساری صورتحال کی ذمہ دار ہے یہ اقدام اگر پہلے اٹھا لیا جاتا تو صورتحال اس قدر خراب نہ ہوتی۔ گندم ‘ آٹا اور دیگر اشیا کے نرخوں میں مسلسل اضافہ ہو رہا ہے۔ متعدد بار ان ہی سطور میں حکومت کی اس سمت میں توجہ دلائی گئی لیکن ضلعی و تحصیل سطح پر نرخوں کو قابو میں رکھنے کا نظام فعال نہ ہو سکا۔ یہ سیدھی سادھی بدانتظامی اور نالائقی ہے۔ حکومت ریاستی اختیارات کو استعمال کرکے مسائل کا حل تلاش کرتی ہے۔ یہاں نوبت یہ ہے کہ کوئی اپنی ذمہ داریاں سمجھنے کو تیار نہیں۔ پاکستان ڈیمو کریٹک موومنت کی صورت میں مخالفین متحد ہو رہے ہیں۔ سردست ان اپوزیشن جماعتوں کا ایجنڈہ اپنی قیادت کے خلاف مقدمات کا خاتمہ ہے۔ وہ وقفے وقفے سے حکومت کے خلاف احتجاج کرتے ہیں لیکن عوامی حمایت میسر نہ ہونے پر انہیں ناکامی ہوتی ہے۔ تیزی سے بڑھتی ہوئی مہنگائی کا رخ تبدیل کر کے اسے سیاسی ایجنڈے پر لایا جا رہا ہے۔

LEAVE A REPLY

Please enter your comment!
Please enter your name here