پنجم خلیفہ راشد امام حسن بن علیؓ

0
234
مفتی عبدالرحمن قمر
مفتی عبدالرحمن قمر

 

مفتی عبدالرحمن قمر،نیویارک

نواسہ¿ رسول، ملت اسلامیہ کے پانچویں خلیفہ راشد سیدنا امام حسنؓ رمضان المبارک کی پندرہ تاریخ اور تین ہجری قمری مدینہ طیبہ میں پیدا ہوئے، دو خوشیاں نصیب ہوئیں، پہلی خوشی کاشانہ¿ عفت و عصمت کے پہلے چشم و چراغ اور دوسری سرکار دو عالمﷺ کی اولاد کہلانے کا شرف بھی حاصل ہوا۔ پہلی مرتبہ نام صفات سے نکال کر اسماءمیں داخل کیا اور نام حسن رکھا۔ سرکار دو عالمﷺ نے اپنے لعاب دہن سے اس نابغہ روزگار ہستی کا آغاز کیا، اور عقیقہ پر سب خاندان والوں کو بلا کر اپنی خوشی کا اظہار کیا اور پھر سواری کیلئے اپنا کندھا مبارک عطاءکیا جس کا جواب سرکار دو عالمﷺ نے یوں دیا تھا، دیکھنے والے آپ نے فقط سوار دیکھا ہے سواری کو نہیں دیکھا جس کو گود میں بٹھا کر فرمایا ہو، میرا یہ بیٹا جنت کے جوانوں کا سردار ہے اور اس کے ہاتھ پر مسلمانوں کے دو عظیم گروہ صلح کریں۔ وگرنہ دوسری صورت میں خون کی ندیاں بہہ جاتیں، آج کے صاحبان علم و فکر کیلئے سرکار کے اس فرمان میں کتنی حقیقتیں پوشیدہ ہیں، دو مسلمان گروہ سبحان اللہ ہمیں احتیاط کی ضرورت ہے فرمان نبویﷺ سامنے رہنا چاہیے۔
سیدنا حسن بصریؒ فرماتے ہیں ایک مرتبہ میں حرم کعبہ میں تھا، ایک شخص سجدہ میں آہ و زاری کر رہا تھا، اس قدر رقت آمیز کہ سحری کے وقت مجھ سے رہا نہ گیا، میں اس خیال سے آگے بڑھا کہ شاید اس پریشان حال شخص کی کوئی مدد کر سکوں، میں نے آواز دی اے بندہ¿ خدا میں آپ کی کوئی مدد کر سکتا ہوں، جب آپ نے سجدے سے سر اٹھایا چہرے سے کپڑا ہٹایا تو وہ سیدنا حسن بن علیؓ تھے، میں نے عرض کی حضور آپؓ، آپؓ نے فرمایا حسن میں تو کچھ بھی نہیں، میں نے اپنے نانا جان اور اپنی مقدس والدہ کی راتیں دیکھی ہی، حضرت حسن بصری فرماتے ہیں ان مقدس ہستیوں کا یہ حال ہے تو ہمارا کیا بنے گا، ایک مرتبہ سفر میں حضرت امام حسینؓ اور حضرت عبداللہ بن جعفر کسےاتھ ایک جھونپڑی میں کچھ وقت گزارا، اس خاتون نے اپنی اکلوتی بکری ذبح کر کے کھلا دی، مدت بعد مدینہ طیبہ میں اس بڑھیا کو مانگتے دیکھا تو پریشان ہو گئے، پاس گئے سلام کیا اور پوچھا مجھے پہچانو میں کون ہوں، اس بڑھیا نے معذرت کی کہ میں نہیں پہچانتی، آپؓ نے فرمایا چلو کوئی بات نہیں میں نے تمہیں پہچان لیا ہے تم نے میرے اور میرے بھائیوں کےساتھ سفر میں نیکی کی تھی، آج سے مانگنا ختم میں ایک ہزار بکری اور ایک ہزار دینا تمہیں دیتا ہوں، حضرت امام حسینؓ نے ایک ہزار بکری اور دینار دیئے حضرت عبداللہ بن جعفرؓ نے دو ہزار بکری اور دو ہزار دینار دیئے اور یوں ایک لمحہ پہلے غریب الوطن مسافر خالی ہاتھ تھی، اب صاحب مال ہو کر وہاں سے جا رہی تھی صرف اس لئے کہ حضرت امام حسنؓ نہیں بھولے بے شک وہ بھول گئی تھی۔

LEAVE A REPLY

Please enter your comment!
Please enter your name here