چوروں کو پکڑیں لیکن عوام کو سزا نہیں دیں!!!

0
149
پیر مکرم الحق

 

پیر مکرم الحق،انڈیانا
mukarampeer@gmail.com

پچھلے ہفتے دو بڑے جلسے ہوئے ایک ایک جلسہ گوجرانوالہ کے سٹیڈیم میں عوامی جمہوری محاذ کا تھا جسمیں مریم نواز، بلاول بھٹو زرداری اور مولانا فضل الرحمان نے اپنی اپنی سیاسی جماعتوں کی نمائندگی کی تھی۔یہ ایک اچھا بڑا جلسہ تھا جسمیں ایک اندازے کے مطابق پچاس ہزار سے 75ہزار لوگوں نے شرکت کی تھی۔اس جلسے کی سب سے حیران کن بات میاں نوازشریف کا ویڈیو خطاب تھا جسے موجودہ حکومت کسی صورت میں اجازت دینے کے حق میں نہیں تھی لیکن بعد میں طاقتور حلقوں کے ایما پر اجازت دے دی گئی۔
دوسرا جلسہ عمران خان کی ٹائیگر فورس کی سالانہ کنونشن کی صورت میں17اکتوبر2020ءکو اسلام آباد کے لیاقت اسٹیڈیم کے کنونشن ہال میں منعقد ہواجس میں ہر ضلع سے تیس سو پچاس ٹائیگر شامل ہوئے تھے۔اس کے علاوہ تحریک انصاف کے کارکنان اور رہنما بھی شریک ہوئے تھے۔ایک اندازہ کے مطابق شرکا کی تعداد دس سے پندرہ ہزار تھی۔بنیادی طور پر یہ کوئی سیاسی جلسہ نہیں تھا ، ایک پی ٹی آئی کی ٹائیگر فورس کی سالانہ کنونشن تھی جسمیں ٹائیگر فورس کے انتظامی مسائل اور موجودہ حالات میں تحریک انصاف کا آئندہ کا لامعمل یا حکمت عملی طے کرنا تھا۔
گوجرانوالہ جلسہ اس لحاظ سے اہم تھا کہ اس میں پی ٹی ایم(عوامی جمہوری محاذ) کی تمام رکن جماعتوں کے کارکنان کے علاوہ عام آدمی بھی شریک ہوا اور یہ ایک اوپن یا کھلی جگہ پر ہوا اور اس کے علاوہ ہے پاکستان کی دو اہم سیاسی جماعتوں کا نمائندہ پلیٹ فارم ہے۔جس کے قائدیں یا زیر حراست ہیں یا ملک بدر ہیں۔جبکہ تحریک انصاف کا کنونشن طاقتور مرکز میں حکومتی ایوان میں اور حکومتی انتظام سے ہوا تھا۔لیکن اب آئیے ان دونوں جلسوں کی اہم ترین تقاریر کی بات کرتے ہیں۔میاں نوازشریف نے اپنی تقریر میں عمران خان کو نشانہ بنانے کے بجائے براہ راست آرمی چیف قمر جاوید باجوہ اور آئی ایس آئی(ISI)کے سربراہ لیفٹیننٹ جنرل فیض حمید کو مورد الزام ٹھہراتے ہوئے یہ بھی کہہ دیا کہ آپ(لوگوں)کو اس کا حساب دینا ہوگا۔آخری بات کو لپٹی لپٹائی دھمکی بھی کہا جاسکتا ہے۔بلاول بھٹو اور مولانا فضل الرحمان کا ہدف عمران خان اور پی ٹی آئی ہی تھے۔بہرحال تمام رہنماﺅں کی گفتگو سے یہ تاثر ملا کے جیسے عمران خان کی حکومت اب چند ہفتوں کی مہمان ہے۔ایسا تاثر بغیر کسی طاقتور حلقوں کے اشاریہ کنائے کے نہیں ملتا بہرحال محسوس ہے ہو رہی ہے کہ کھیل ختم ہونےوالا ہے۔یہ ایک نفسیاتی تاثر پیدا کرنے والی بات بھی ہوسکتی ہے۔لیکن حقیقت یہ ہے کہ میاں نوازشریف پرانے کھلاڑی ہیں۔اور اسٹیبلشمنٹ سے سلیک سلیک بھی پرانی ہے۔اب بھی ان کے کئی دوست راولپنڈی کے اہم عہدوں پر براجمان ہیں وہ کبھی گولیاں نہیں کھیلتے نہ ہی کچا ہاتھ ڈالتے ہیں۔ادھر عمران خان کی تقریر میں ماحولیاتی آلودگی پر زیادہ زور تھا پودہ لگاﺅ مہم کی افادیت پر بات کی گئی اور گندم اور دالوں کی مہنگائی کو ماحولیاتی آلودگی سے جوڑنے کی بھونڈی کوشش کی گئی۔پچھلے سالوں میں اتنی بارشیں نہیں ہوئیں تھیں لیکن اس سال بارشیں ریکارڈ حد تک بلاشک زیادہ ہوئیں ہیں۔بارشیں نہیں ہوں تو بھی گندم کی کاشت متاثر ہوتی ہے اور اگر زیادہ بھی ہوں تو گندم کو نقصان ہوتا ہے۔لیکن گندم کی سمگلنگ اور غیر ضروری برآمد جس کی اجازت ان کی حکومتوں کے وزیروں اور افسران نے ایک ملی بھگت سے دی اسی طرح چینی کی مہنگائی کا ذمہ دار زرداری گروپ اور میاں صاحبان کے کھاتے میں ڈالنے کی کوشش کی حالانکہ جس گندم، آٹے اور چینی مافیا کے سربراہ جہانگیر ترین نے یہ سارا کھیل رچایا وہ خود تو ملک سے فرار ہوگئے لیکن ان کے کارندے آج بھی وزیر بنے عمران خان کی کابینہ کا حصہ ہیں۔وزیراعظم کا خوراک کی قلت میں ذخیرہ اندوزی کو سب سے بڑا غصہ قرار دینا اور شور شرابہ ڈالتے ہوئے ٹائیگر فورس کے غیر منظم گروہ کو ذخیرہ اندوزوں پر نظر رکھنے کی ہدایت دینا اپنی حکومتی مشیروں کی مکمل ناکامی کے اعتراف سے مترادف ہے۔جو ٹائیگر اپنے سربراہ کے بار بار خاموش رہنے کی ہدایت پر عمل نہیں کرتے انہیں گوداموں پر تصاویر لینے کی ہدایات دینا ملک میں انار کی پھیلانے کا سبب بن سکتی ہے۔یہ کام حکومتی مشینری کا ہے اور ایک جماعتی کارکن کو جب آپ بے اختیار دے دیں کے وہ حکومتی مشینری کے کام کو سنبھال لیں تو یہ ایک اور بنیادی سطح پر کارکنان کو بدعنوانی کا راستہ دکھا رہے ہیں۔ظاہر ہے ان ٹائیگرز کے پاس وسائل نہیں قانونی اختیارات نہیں تو پہلے تو وہ اس کام کو کرنے کے لوازمات حاصل کرینگے پھر وہ اپنے اختیارات پیدا کرکے جب اطلاعات افسران تک پہنچائیں گے۔اور اگر کوئی قدم نہیں اٹھایا گیا تو وہ بیزار ہوکر قانون کو اپنے ہاتھوں میں لینگے۔اپنے ذاتی عناد کے بدلہ بھی لینگے یہ صورتحال معاشرے میں ٹکراﺅ کا سبب بن سکتی ہے۔
عمران خان نے نہایت غصہ میں میاں نوازشریف کی پی ڈی اے والی گوجرانوالہ جلسے کی ویڈیو تقریر پر سیخ پا ہوتے ہوئے میاں صاحب کو اسٹیبلشمنٹ کا بنایا ہوا سیاستدان بتایا جنرل جیلانی اور ضیاءالحق کی حقیقت سے کوئی انکار نہیں کرسکتا لیکن یہ کام میاں صاحب نے اپنے سیاسی کیریئر کے آغاز میں کیا پھر اپنی غلطیوں سے سیکھتے رہے لیکن افسوس کی بات یہ ہے کہ عمران خان نے پچیس سال فوج اور اسمبلیوں پر کڑی تنقید کرنے کے بعد جاکر انکے چرنوں میں بیٹھ کر آشیرباد لیکر اقتدار میں آئے جو ابتدا میں کرنا چاہئے تھا وہ آکر آخر میں کیا عدالتوں کو بھی کڑی تنقید کا نشانہ بنایا اور اپنے مخالفین کے خلاف جلدی جلدی فیصلے کرنے کی ہدایت کی،نیب کو بھی تاکید کی کہ یہ بچنے نہ پائیںپھر بھی ان بدعنوانی کا باعث بنے ہیں۔

LEAVE A REPLY

Please enter your comment!
Please enter your name here