جاوید رانا، بیوروچیفشکاگو
پاکستانی سیاست کے حوالے سے ہمارا گزشتہ کالم موضوع بحث تو رہا البتہ بعض احباب کا یہ کہنا تھا کہ موجودہ سیاسی حالات محض دو ڈھائی برس کے سیاسی اُتار چڑھاﺅ یا انتظامی کجی کا نتیجہ نہیں بلکہ گزشتہ کئی عشروں کی سیاسی چمتکاریوں میں ہر حد سے گزر جانے، انتظامیہ اور پولیس کے سیاسی مفاد کیلئے استعمال کئے جانے نیز معاشرے میں عدم برداشت، نفسیاتی دباﺅ کےساتھ مذہبی شدت پسندی کے بڑھتے ہوئے متشددانہ رحجان کے سبب ہے، یعنی یہ دو چار برس کا قصہ نہیں نصف صدی کی بات ہے۔ دیکھا جائے تو پولیس اور انتظامیہ کو سیاسی و مفاداتی استعمال کا کھیل تو پاکستان کے اولین برسوں سے ہی شروع ہو گیا تھا، جب لیاقت علی خان کی شہادت کے بعد فوج و بیورو کریسی کی مدد سے غلام محمد نے خواجہ ناظم الدین کو ہٹا کر گورنر جنرل کا عہدہ سنبھال لیا تھا لیکن پولیس کا سیاسی استعمال شہید ذوالفقار علی بھٹو کے دور اقتدار سے مخالفین کو نکیل ڈالنے کیلئے فزوں ہوا، بڑھتے بڑھتے گزشتہ چار دہائیوں میں یہ اس انتہاءکو پہنچ چکا ہے جہاں کسی قسم کی اصلاح یا تبدیلی کی کوئی صورت نظر نہیں آتی۔ ہر دور کے حکمرانوں نے پولیس کے نظام میں بہتری لانے کے دعوے کئے، تربیت و اصلاح کے منصوبے بنائے لیکن ڈھاک کے تین پات کے مصداق نتیجہ صفر ہی رہا۔ بیسیوں قسم کی فورسز بنائی گئیں، عوام دوستی کی تشہیر کی گئی لیکن پولیس کے اطوار عوام دوستی کی جگہ خوف و دہشت کی عملی تصویر ہی بنے رہے۔
یوں تو پولیس کی دہشتگردی اور سیاسی بنیادوں پر قتل عام کی فہرست کراچی سے خنجراب تک ہر شہر، ہر قصبہ اور گاﺅں تک دراز ہے۔ ماڈل ٹاﺅن کا قتل عام، مقصود کا کراچی میں مارا جانا یا ساہیوال میں بچوں کے سامنے ماں باپ کو گولیوں سے بھون دینا اس کی واضح مثالیں ہیں۔ 2 جنوری کو پاکستان کے دارالحکومت اسلام آباد میں 21 سالہ طالبعلم اسامہ ندیم ستی کو پولیس کے پانچ ارکان کا براہ راست گولیاں کا نشانہ بنانا، محض اس جواز پر کہ اس نے کہنے کے باوجود گاڑی نہیں روکی، پولیس کی بربریت کا تازہ ترین واقعہ ہے۔ اگرچہ پانچوں افراد گرفتار بھی ہو گئے ہیں، ان پر قتل، دہشتگردی سمیت متعدد دفعات لگانے کےساتھ ایک جوڈیشل تحقیقاتی ٹیم بھی تشکیل دےدی گئی ہے جس میں آئی بی اور ایم آئی کے نمائندے بھی شامل ہیں لیکن کیا ملزمان کو سزا ملے گی؟ یہ ایک سوال ہے۔ پیٹی بند بھائی انہیں بچانے کی کوشش کرینگے، بلکہ کوششیں شروع ہو گئی ہیں، پہلے متعلقہ ڈی آئی جی کی ایک ٹوئیٹ سامنے آئی، پھر فوراً ہی ہٹا دی گئی، میڈیا نے اس کا بھانڈا پھوڑ دیا کہ اس ٹوئیٹ میں مرحوم اسامہ کو مبینہ مجرم قرار دینے کی کوشش کی گئی تھی، اب سوشل میڈیا کے توسط سے اسامہ کے نام پر درج گزشتہ برسوں کی بعض ایف آئی آر سامنے آرہی ہیں جن میں نام صرف اسامہ لکھا ہوا ہے، اسامہ ستی یا اسامہ ندیم نہیں ہے۔ ہمارے ذرائع کے مطابق اسامہ کے والد ندیم ستی نہ صرف ایک متمول کاروباری ہیں بلکہ تحریک انصاف کے اہم سپورٹر بھی ہیں، ممکن ہے اس وجہ سے تحقیقات و مقدمہ میں ملزمان کو سزائیں ہو جائیں لیکن کیا اس کے بعد پولیس کے روئیے و بربریت کی روک تھام ہو سکے گی، کیا پولیس کے نظام میں بہتری آئےگی۔
بربریت کا انتہائی اندوہناک واقعہ تو 3 جنوری کو بلوچستان میں مچھ کے علاقے میں بھی ہوا ہے جس میں بعض مسلح افراد نے ایک کان میں کام کرنےوالے گیارہ مزدوروں کو ان کے ہاتھ، پیر کو باندھا، آنکھوں پر پٹیاں باندھ کر فائرنگ کر کے ہلاک کر دیا، ہلاک شدگان کا تعلق ہزارہ گروپ سے بتایا جا رہا ہے۔ واضح رہے کہ بلوچستان میں گزشتہ کئی برسوں سے ہزارہ برادری کے سینکڑوں افراد (بشمول خواتین و بچے) کی مذہبی جنون کی بنیاد پر ہلاکتیں ہو چکی ہیں اور یہ وہ حلقے ہیں جو اپنے علاوہ کسی دوسرے فرقہ یا اعتقاد خصوصاً اتناعشری فرقہ کو تسلیم ہی نہیں کرتے۔ افسوس تو یہ ہے کہ حقیقت جانتے ہوئے متعلقہ حکومتیں اور انتظامیہ ان کےخلاف کوئی عملی اقدام کرنے سے بھی قاصر ہی رہی ہیں۔ ہوتا یہ ہے کہ ہلاکتیں ہوتی ہیں، ہزارہ برادری اس پر احتجاج کرتی ہے اور متعلقہ حکمران و انتظامی عہدیداران طفل تسلیوں، وعدوں اور معاوضوں پر معاملہ ٹرخا دیتے ہیں۔ اس وقت بھی جب ہم یہ سطور لکھ رہے ہیں ہزارہ برادری نے دھرنا دیا ہوا ہے، مقتولین کی لاشیں سڑک پر رکھ کر احتجاج کر رہے ہیں، وزیر داخلہ مچھ پہنچے ہیں، مظاہرین کو یقین دلایا ہے کہ مجرموں کو گرفتار کر کے کڑی سزائیں دیں گے لیکن مظاہرین یقین کرنے پر راضی نہیں ہیں نہ ہی میتیں دفنانے پر آمادہ نظر آتے ہیں اور وزیراعظم کی یقین دہانی پر مصر ہیں۔
سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ مذہبی جنونیت کے معاملات ہوں، پولیس گردی کے واقعات ہوں یا عوام میں بددلی، مایوسی یا عدم برداشت کی کیفیت، اس کے محرکات کیا ہیں؟ کیا یہ بدلتی ہوئی معاشرت و اقدار کی ہی بدولت ہیں یا اس میں ہماری سیاسی، انتظامی، مذہبی و طبقاتی روشوں کا بھی نتیجہ کہ جن میں اپنے مفادات اور اپنی خواہشوں کے آگے دیکھنا ہی نہیں چاہتے اور ہر معاملے کو ڈنگ ٹپاﺅ انداز میں نپٹانے پر عمل کرتے ہیں۔ گزشتہ ادوار کے حکومتی اراکین نے تو پولیس کو اپنے مفادات کے حصول کیلئے سیاسی بنائے رکھا تھا لیکن موجودہ حکومت اور وزیراعظم کا تو بہت واضح وژن پولیس اصلاحات کا تھا، کے پی میں پولیس اصلاحات کا دعویٰ اور فخریہ مثال بنا کر پنجاب اور دیگر صوبوں میں اصلاحات کا دعویٰ ہنوز تشنہ تعبیر ہے، سیف سٹی، کیمروں کی تنصیب آئی جیز اور دیگر پولیس افسران کی تبدیلیاں بھی کچھ بہتری نہ لا سکی ہیں لگتا ہے کہ معاملہ محض دعوﺅں اور بیانات تک ہی ہے۔ پولیس کی تربیت اور احساس ذمہ داری نیز نظام کو بہتر بنانے پر کسی کی توجہ نہیں ہے۔
77ءکی پی این اے کی تحریک، افغان روس جنگ، آئی جے آئی جیسے اقدامات کے ذریعے مذہبی حلقوں کو بڑھاوا دینے کا نتیجہ یہ ہوا ہے کہ آج مذہب کی آڑ میں سیاست کرنے والی قوتیں مملکت و ریاست کےخلاف ببانگ دہل نعرہ¿ زن ہیں اور دھمکانے میں کوئی جھجک محسوس نہیں کرتیں۔ فضل الرحمن کی جے یو آئی کے پی ڈی ایم کے پلیٹ فارم سے پنڈی پر لانگ مارچ کا اختتام کرنے کے پیغام پر کوئی محب وطن تشویش کئے بغیر نہیں رہ سکتا۔ کفایت اللہ کا فوج کےخلاف ہذیان بکنا کیا پاکستان کے حق میں ہو سکتا ہے موجودہ سرحدی و خطہ کی صورتحال میں جب بھارت ہر طرح سے کمینگی پر اُترا ہوا ہے ان مذہبی سیاستدانوں کو نکیل ڈالنے کا وقت آگیا ہے جو مودی کے ایجنڈے پر مودی کی زبان بولنے والے نوازشریف کے ہمنوا بنے ہوئے ہیں۔ پی ڈی ایم کی وہ جماعتیں جو پاکستان کی وحدت و سالمیت کی داعی ہیں انہیں بھی اپنے لائحہ عمل پر نظر ثانی کرنے کی ضرورت ہے۔ سب سے بڑھ کر وزیراعظم کو اپنے رویوں اور لائحہ عمل کو بدلنا ہوگا۔ نظام میں بہتری کیلئے عملی اقدامات کےساتھ پارلیمان کی فعالیت و کارکردگی پر بھی توجہ دینے کی ضرورت ہے۔ محمد علی دُرانی کی کوششیں بلا سبب نہیں ةیں، پس پردہ اسباب کو سمجھنے کی کوشش کی جائے تاکہ حکومت و ریاست دونوں مستحکم ہوں۔ کرپٹ اور لٹیرے تو پکڑ میں آ ہی جائیں گے۔
٭٭٭