آنکھوں دیکھا
عامر بیگ
سات سال کی محبت اور پیار سے بھرپور رفاقت کے بعد جب ایسا موقع آیا کہ ہمیں اپنی فیملی اور چھ سالہ بچے کی بہتری کے لیے علیحدہ ہونا پڑا تو ہم نے احترام کا رشتہ قائم رکھتے ہوئے ایک دوسرے سے الگ ہونے فیصلہ کر لیا اگرچہ مجھے میری بہت ہی خوبصورت نیلی آنکھوں ،بھورے بالوں والی بلانڈ پڑھی لکھی بیوی اور جان سے پیارے بیٹے زیک سے جدائی ناقابل برداشت تھی لیکن دل پر جبر کر کے یہ کڑوا گھونٹ پینا پڑا ابتدا کچھ یوں ہوئی کہ کچھ ہم بھی عاشق مزاج واقع ہوئے تھے اور کچھ وہ بھی قدرے ہم سے لاپرواہ ہو گئی تھی آخر ی دنوں پچھ پرتیت سے لگتا تھا کہ بات تو تکرار تک پہنچ جائے گی تو میں نے اپنا منہ سختی سے بند کر لیا ۔ایک تابعدار خاوند اور کر بھی کیا سکتا ہے اور یہاں امریکہ میں تابعدار بننا ہی پڑتا ہے ورنہ گزارا ممکن نہیں۔ دو تین دن تک جب چپ کا روزہ رکھا، اس نے تنگ آکر پہلی اور آخری دفعہ پولیس کو کال کر لی، پولیس آئی تو وہ اوپر کے کمرے میں تھی میں نے دروازہ کھولا پولیس اندر آگئی اور کہا کہ آپ کی شکایت ہوئی آپ کی بیوی نے کال کی ہے میں نے کہا کہ وہ اوپر ہے اور میں رات کا کھانا ٹیبل پر لگا بیٹھا تھا ،نوالہ منہ میں ہی تھا اسے بلایا اور اجازت طلب کی کہ آپ اس کی بات سنیں اور میں اپنا کھانا ختم کرتا ہوں، اس نے کہا کیری اون جتنی دیر میں اس نے رو رو کر اپنا مدعا بیان کیا اتنی دیر میں میں کھانا ختم کر چکا تھا ۔پولیس آفیسر میری طرف متوجہ ہوا میرا نام پوچھ لینے اور ڈرائیور لائسنس دیکھ لینے کے بعد بولا آپ کا کیا ورژن ہے میں نے کہا خاموشی جب کوئی آپ سے اُلجھنا چاہے تو میں خاموشی اختیار کر لیتا ہوں میں ایک پڑھا لکھا شخص ہوں اس طرح سے بات بڑھتی نہیں ہے کوئی دیوار سے کب تک بولے گا یہ محترمہ مجھ سے بات بات پر الجھنے کی کوشش میں تھی میں نے خاموشی اختیار کر لی اب اس نے آپ کو کال کر لی ہے آپ مجھے بولنے پر کس طرح سے مجبور کر سکتے ہیں آپ تو خود کہتے ہیں کہ آپ کے پاس چوائس ہے کہ آپ خاموش رہ سکتے ہیں اور قانون بھی یہی کہتا ہے ابھی اس نے آپکو یہ بتایا کہ اسے مجھ سے سوا نہ بولنے کے کوئی اور شکایت نہیں ہے نہ اس نے مجھے زدوکوب کیا ہے نہ جسمانی اور زبانی حراس کیا ہے نہ ہی جنسی طور پر کوئی تکلیف پہنچائی ہے اگر پھر بھی آپ مجھے گرفتار کر نا چاہتے ہیں تو میں صرف آپکی اجازت سے جوتے پہنوں گا اور آپ کے ساتھ چلنے کو تیار ہو جاو¿ں گا ،پولیس نے میری بیوی سے کہا کہ محترمہ یہ پولیس کیس نہیں ہے ہم معذرت خواہ ہیں پولیس چلی گئی اس نے رو کر مجھ سے معافی مانگی اور میں نے اسے گلے لگا لیا، ہمارے گھروں میں اور خاص طور پر امریکہ میں ہر سال تین ملین کے قریب ڈومیسٹک واو¿لینس کے کیسز رپورٹ ہوتے ہیں ویسے تعداد ان سے کہیں زیادہ ہے اگر ہم میں سے ایک فریق تھوڑی دیر کے لیے خاموشی اختیار کر لے تو خوفناک نتیجے سے بچا جا سکتا ہے۔ زندگی میں دوست یا محبت کرنے والے کے لیے سائلینس ٹریٹمنٹ سے زیادہ سزا اور کیا ہو سکتی ہے اور اس سے رشتے ٹوٹنے سے بھی بچ جاتے ہیں اور ہاں وہ بلانڈ اب میرے نئی بیوی سے بچوں کی وقت پڑنے پر بیبی سٹنگ بھی کر دیتی ہیں، ان کو کھلونے بھی دیتی ہے ،آٹھ سال ہو گئے ہیں ہمیں علیحدہ ہوئے مجھے میرے بیٹے سے ملنے کو بھی کبھی منع نہیں کیا ہم نے اس کے بعد سے آج تک کبھی لڑائی نہیں کی اور آج بھی ایک دوسرے کے ساتھ دوستوں جیسا برتاو¿ کرتے ہیں۔
٭٭٭