ہنگامہ ہے کیوں برپا!!!

0
138
ماجد جرال
ماجد جرال

 

 

انتخابات میں دھاندلی ہو گئی یا انتخابات چرا لئے گئے ، کسی بھی مہذب ملک میں یہ فقرے اس کی عوام پر یقینا گہرے نفسیاتی اثرات چھوڑتے ہوں گے۔ممالک کی تاریخ کا جائزہ لیا جائے تو ترقی یافتہ ممالک صرف اسی وقت یہ کہلانے کے مستحق ہوتے ہیں جب وہ اپنے نظام کو اس قدر مضبوط کر لیتے ہیں کہ کسی فرد یا ادارے کی جرت نہ ہو کہ وہ اس نظام کو اپنی مرضی سے چلانے کی کوشش کرے یا اس سسٹم میں اپنی مرضی کے مطابق ردوبدل کر سکے اور پھر ایسی آوازیں انہیں ترقی یافتہ ممالک سے اُٹھتی ہیں کہ ہم نے قبرستان ایسے لوگوں سے بھرے دیکھئے جو اپنے آپ کو ناگزیر سمجھتے تھے۔ایک بات اور کہنا چاہوں گا کہ ترقی یافتہ ملکوں میں ان کا نظام ہیں ان کی ترقی یافتہ ہونے کی اہم وجہ ہوتا ہے، بڑے سے بڑے تیس مار خان کو بھی کسی کمزور پر ہاتھ اٹھانے یا کسی کا حق مارنے کی ضرورت صرف اس وجہ سے نہیں ہوتی کہ سسٹم کی نظر میں دونوں برابر ہوتے ہیں۔
کسی بھی ترقی یافتہ ملک میں انتخابات اس” ترقی یافتہ” ہونے کے لقب کو جانچنے کی سب سے اہم کڑی اور نمایاں خاصیت ہوتی ہے۔ امریکہ ایک صدارتی طرز کا جمہوری نظام رکھنے والا ملک ہے ،اٹھارویں صدی میں تقریبا چار بار، انیسویں صدی میں تین بار اور بیسویں صدی میں غالبا یہ تیسرا موقع ہے جب امریکی انتخابات پر پڑنے والے امیدوار یعنی 20 جنوری دن ساڑھے گیارہ بجے تک صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی جانب سے گہرے سوالات اٹھائے جا رہے ہیں۔صدر ڈونلڈ ٹرمپ موجودہ انتخابات کو سرے سے ہی تسلیم کرنے سے انکار کر چکے ہیں۔ وہ اس بات کو دہراتے بھی نظر آتے ہیں کہ ان کے ووٹ کس کو چرایا کیا اور نومنتخب صدر جو بائیڈن کے لیے ان ووٹرز کا بھی استعمال کیا گیا جو دنیا سے ہی رخصت ہو چکے ہیں۔امریکی انتخابات پر موجودہ صدر کا یہ عدم اعتماد کس قدر حساس مسئلہ ہے اس کو سمجھنے کے لئے آپ تیسری دنیا میں ہونے والے انتخابات کو دیکھ لیں۔ ترقی پذیر ممالک میں ہونے والے انتخابات عموما ان نتائج کے ساتھ نمودار نہیں ہوتے جو عوامی ووٹ کی صورت میں سامنے آنے چاہئے۔کسی نہ کسی سطح پر کسی پسندیدہ شخصیت یا پسندیدہ پارٹی کو فیور دی جاتی ہے۔ اس سارے عمل کے بعد حکمران بننے والی پارٹی نہ صرف مددگار اشرافیہ کے ہاتھوں اپنے دورِ حکومت میں نہ صرف بلیک میل ہوتی رہتی ہے، بلکہ ایسے عجیب و غریب فیصلے کرنے پر بھی مجبور ہوتی ہے جو صریحا عوامی مفادات کے خلاف ہوتے ہے۔ یہی جماعتیں اپنے دور حکومت میں اپنے ہی کیے گئے وعدوں سے مکر جانے پر مجبور ہو جاتی ہیں یہی جماعتیں ان تمام کاموں کا دفاع کرتی ہوئی نظر آئیں گی جو ماضی میں ان کاموں کو تنقید کا نشانہ بنایا کرتی تھی۔ مختصرا حکمران جماعت ایک ایسی جیل میں قید کر دی جاتی ہے جس میں وہ اپنی مرضی سے نکل کر کام نہیں کر سکتی۔پھر اس سارے عمل کا خمیازہ اس ترقی پذیر ملک کی عوام کو برداشت کرنا پڑتا ہے، صرف انتخابات شفاف نہ ہونا ان ترقی پذیر ممالک کی راہ میں ترقی یافتہ ممالک بننے کے سفر کے دوران ہمیشہ سب سے بڑی رکاوٹ رہتا ہے۔ آج امریکہ میں سیاسی اور سماجی فکر رکھنے والے لوگوں کے لئے ڈونلڈ ٹرمپ کے یہ اقدامات انتہائی تشویش کا باعث بن رہے ہیں۔
سابقہ انتخابات میں ڈیموکریٹک پارٹی کی جانب سے اگرچہ انتخابات کے نتائج کو قبول کرلیا گیا مگر روس کی مداخلت کا الزام لگا کر شاید موجودہ صدی میں امریکی انتخابات کو متنازع بنانے کا سنگ بنیاد رکھا گیا۔ حالیہ انتخابات میں ڈونلڈ ٹرمپ کی جانب سے روا رکھے جانے والا رویہ ان لوگوں کے لیے تشویش کا باعث بن رہا ہے جو یہ سوچ بھی نہیں سکتے کہ امریکی نظام میں اس قدر بھی کمزوری یا خامی موجود ہوسکتی ہے کہ کوئی انتخابات جیسے اہم ترین ملکی اقدام کو اپنی مرضی کے مطابق استعمال کر سکے۔
یہ طبقہ اسی سوچ میں اب گم ہے کہ اگر انتخابات کو متنازعہ کہنے کا عمل جاری رہا تو یہ ہمیں اس بات کی طرف متوجہ تو نہیں کر رہا کہ ترقی یافتہ امریکہ خدانخواستہ کہیں ترقی پذیریت کی جانب سفر کا آغاز کر چکا ہے۔
(اپنی آراءسے متعلق آگاہ کرنے کے لیے 6463531386 پر واٹس ایپ کریں)
٭٭٭

LEAVE A REPLY

Please enter your comment!
Please enter your name here