بیجنگ / واشنگٹن:
صدر بائیڈن کے منصب سنبھالنے کے بعد امریکی جنگی بیڑوں نے چینی سمندری حدود کے نزدیک دوسری بڑی نقل و حرکت کی ہے۔
غیر ملکی خبر رساں ادارے کے مطابق بحیرہ جنوبی چین میں امریکی طیارہ بردار بحری بیڑوں نے مشترکہ مشقیں انجام دی ہیں جب کہ کچھ ہی روز قبل امریکا کے جنگی بحری جہاز متنازع خطے میں چین کے زیر انتظام جزیروں کے نزدیکی علاقوں میں آگئے تھے۔
چینی وزارت خارجہ کی جانب سے امریکا کے اس اقدام کو خطے کے امن و استحکام کے لیے خطرہ قرار دیا گیا ہے۔ چینی دفتر خارجہ کے ترجمان وانگ وینبن نے بیجنگ میں صحافیوں سے بات کرتے ہوئے کہا کہ امریکا کے طیارہ بردار بحری بیڑوں کی بحیرہ جنوبی چین میں نقل و حرکت پر نظر رکھے ہوئے ہیں، طاقت کا یہ مظاہرہ خطے میں امن و استحکام کے لیے مددگار ثابت نہیں ہوگا۔
انہوں نے کہا کہ چین اپنی سالمیت کو برقرار رکھنے اور علاقائی امن و استحکام کے تحفظ کے لیے ہرممکن اقدامات کرے گا۔
واضح رہے کہ کچھ ہی دن قبل چین کی جانب سے پاراسل جزیرے کے قریب امریکی جنگی بیڑے جون مک کین کی نقل و حرکت کی مذمت کی گئی تھی۔ صدر بائیڈن کے منصب صدارت سنبھالنے کے بعد چینی حدود کے نزدیک امریکا کی یہ پہلی بڑی نقل و حرکت تھی۔
گزشتہ ماہ امریکی فوج کی جانب سے کہا گیا تھا کہ چینی فضائیہ نے بحیرہ جنوبی چین پر پروازیں کی ہیں تاہم ان پروازوں سے امریکی بحریہ کو کوئی خطرہ پیش نہیں آیا۔ تاہم چین کے اقدام کو اس علاقے میں جاری چپقلش میں اضافے کا اشارہ سمجھا گیا۔
خیال رہے کہ امریکا بحیرہ جنوبی چین میں سرحدی حدود سے متعلق چین کے کئی دعوؤں کو تسلیم نہیں کرتا ۔ امریکا کا الزام ہے کہ قدرتی وسائل سے مالامال اس خطے میں چینی بحریہ اور عسکری قوت کا مقصد ملیشیا، فلپائن اور ویتنام جیسے پڑوسی ممالک کو دھمکانا اور دباؤ میں لانا ہے۔
امریکی بحریہ کے بحیرہ جنوبی چین میں مشقیں کرنے والے بیڑے کے کمانڈر جم کرک کا کہنا تھا کہ ہم بین الاقوامی قوانین کے تحت سمندر میں نقل و حرکت کے لیے تمام ممالک کے یکساں حق کو یقینی بنانے کے لیے پُرعزم ہیں۔
چین نے اس سے قبل بھی بحیرہ جنوبی چین میں اپنے زیر انتظام کئی جزیروں کے نزدیک امریکی جنگی بیڑوں کی نقل و حرکت پر شدید ردعمل ظاہر کیا ہے اور اسے اپنی سالمیت کے لیے چیلنج قرار دیتے ہوئے امریکا پر کشیدگی بڑھانے کے الزام بھی عائد کیا ہے۔
صدر بائیڈن کے برسر اقتدار آنے کے بعد گزشتہ ہفتے آبنائے تائیوان میں امریکی جنگی بیڑے کے نقل و حرکت پر بھی چین کی جانب سے شدید ردعمل ظاہر کیا گیا تھا۔
مبصرین کا کہنا ہے کہ صدر بائیڈن کے برسراقتدار آنے کے بعد چین کے ساتھ امریکا کے تعلقات میں ٹرمپ دور کی تلخیاں کم ہونے کی توقع ظاہر کی جارہی تھی تاہم بحیرہ جنوبی چین میں امریکی بحریہ کی نقل و حرکت اس تاثر کو تقویت فراہم نہیں کرتی۔