کامل احمر
کتابیں پڑھنے کا دور جانیئے ختم ہوا میرا مطلب اردو کتابوں سے ہے ایک زمانہ تھا کوئی نیا ناول بازار میں آتا تو لائبریریوں پر لائن لگ جاتی کرایہ دے کر کتاب حاصل کی جاتی اور باری باری گھر کے تمام افراد وہ کتاب پڑھتے ، اپنا شعور پڑھاتے۔دوسروں کی زندگیوں میں جھانکتے جو ناول نگار یاافسانہ نگار نے اپنے مشاہدے، تجربے اور تحریک سے دلچسپ بنا دیتے۔خدا کی بستی آگ کا دریا، پتھر کے ہونٹ چوٹ ساٹھ کی دہائی میں چائے خانوں میں گفتگو کا مرکز تھے اب تو ہم لکھنے والوں کا نام بھولتے جارہے ہیں۔یہ حال تو ہماری جنریشن کا ہے۔مغرب میں آج بھی سوشل میڈیا کے علاوہ کتابوں کا رواج ہے۔شوق ہے ان کتابوں پر فلمیں بنتی ہیں۔اور مقبول ہوتی ہیں۔ساﺅتھ امریکہ میں انقلابی لیڈر چی گوارا کی ڈائری پر فلم موٹرسائیکل ڈائزیز بنی اور تب لوگوں کو معلوم ہوا کہ امریکہ سے نیچے جڑنے ساﺅتھ امریکہ میں ہر ملک غربت اور کسمپرسی کا شکار ہے۔ہمارے یہاں جیسا کہ ہم نے پچھلے کالم میں سیاحت کے بارے میں مختصراً لکھا تھا سوچا کچھ سفر ناموں کا ذکر کیا جائے جو دلچسپ ہیں ہم ایسا کرتے رہیں گے۔ہمیں اپنے دوست حسن ظہیر جعفری کے لکھے سفر نامے ”منزلیں اور قوس وقزاح“ کی کتاب وصول ہوئی پہلے یہ سفر نامہ”منزلیں“ کے نام سے شائع ہو کر پاکستان میں مقبول ہوچکا ہے۔اس لئے نہیں کہ اس میں ہمارا ذکر ہے بلکہ اس لئے کہ تھائی لینڈ کا تفصیل سے ذکر ہے۔موصوف اپنے اہل وعیال کے ساتھ ایران اور عراق کی زیارت کرکے لوٹے لو”انکے ٹریول ایجنٹ نے جیسے انہیں دبوچ لیا۔جیبیں بھری ہوں تو ایسا ہی ہوتا ہے۔اب بھلا اسی سال کی عمر اور تھائی لینڈ کی سیاحت موصوف مرتے کیا نہ کرتے۔تھائی لینڈ کے باغ و بہار بین الاقوامی شہرت یافتہ دارلخلافہ بنکاک پہنچ گئے جہاں ہر طرف حسینائیں مسکراتی پھرتی ہیں۔سفرنامہ پڑھ کر تو ایسا ہی لگا حیرت کہ بیگم نے وہاں اکیلے جانے پر کچھ بھی نہیں کہا۔بڑے دلچسپ ہیں حسن ظہیر پڑھتے سے زیادہ ملنے پر معلوم ہوتا ہے۔ابن بطوطہ بھی سیروتفریح کے لئے نکلا تھا اس نے سفر کے دوران بڑے گلچھڑے اڑائے مگر شرعی اعتبار سے جو جائز تھے۔ہمارے حسن ظہیر اس کے برخلاف جیسے گئے تھے ویسے ہی لوٹے۔ہم نے جب وہ نیویارک آئے تو پوچھا تھائی لینڈ نے کچھ بگاڑا تمہارا قہقہہ مار کر بولے“اس عمر میں؟“اس سے پہلے موصوف ہندوستان دکھا چکے ہیں۔حیدر آباد(سندھ) کا ذکر ہے محسن بھوپالی(مرحوم) کے تعلق سے اور جب کا ذکر ہے جب حیدرآباد خوبصورت تھا جو بن پر تھا انگریز نیا نیا چھوڑ کر گیا تھا اور اب ہم نے مل کر حیدرآباد(سندھ) کو تباہ وبرباد کردیا۔عظیم قوموں کی کیا بات ہے ہمیں فخر ہے طارق بن زیاد پر خالد بن ولید اور سب سے زیادہ اپنے رسول کے بعد حضرت عمر اور حضرت علی پر لیکن ہم کہاں سے کہاں پہنچے ہیں۔اس کا ہنر ہمیں آتا ہے معذرت خواہ کہ ہم ذکر تو حسن ظہیر کے سفرنامے کا کر رہے تھے جس میں موصوف نے بنکاک کو اپسراﺅں کا دیس لکھا ہے آگے یہ بھی لکھا ہے کہ بنکاک انہیں قحبہ خانہ لگا ظاہر ہے ایران اور عراق سے لوٹنے کے بعد ایسا ہی ہونا تھا۔جگہ جگہ گوتم بدھ کا پڑاﺅ ملا یعنی مجسمہ ہندوستان سے باہر برما، ملائیشیا، تھائی لینڈ، سنگاپور اور اوپرشمال میں کھٹمنڈو(نیپال) تبت لہاسہ ملائیشیا؟ چین اور جاپان حتیٰ کہ افغانستان میں سب بڑا مجسمہ ہے جیسے طالبان نے بم سے اڑا دیا انکی پہنچ یہیں تک تھی اور غصہ تھا کسی اور پر بے چارہ گوتم بدھ نظر آگیا۔
تھائی لینڈ کے تاریخی مقامات کا ذکر ہے موسم(گرم) کا حال ہے اور چاروں طرف پھیلے ہوئے دنیا جہاں کے سیاح دکھائے ہیں۔1782میں بنے بادشاہوں کے محل گرانڈپلیس کا ذکر ہے جہاں داخلہ عام ہے بنکاک کی سیر کے بعد وہ ایک اور سیاحوں کی دلچسپی کے مرکز پٹایا لے گئے ہیں جو خوبصورت ساحل سمندر کے کنارے ہے۔یہ وہ ہی جگہ ہے جیسے سونامی بہا کر لے گیا تھا یہ2005کا ذکر ہے لیکن اب پھر آباد ہے سرسبزوشاداب ہے اور کہہ رہا ہے ہم دوبارہ کشتی نوح بنا سکتے ہیں۔اتنے بڑے جانی اور مالی نقصان کے بعد۔
ایسے سیاحوں کی جنت کہا جاتا ہے ویسے تو بنکاک کے باہر جو بھی مقام ہیں جنت کا نظارہ ہیں اور عام حوریں گھومتی پھرتی نظر آتی ہیں۔ایسے کئی مقامات پاکستان میں ہیں جو پاکستان کے لئے زرمبادلہ کا باعث بن سکتے ہیں۔حکومت توجہ دے اگر حسن ظہیر نے پٹایا لے جاکر جیسے سب کو مدعو کیا ہے جیب بھاری ہونا ضروری ہے یہ کہنے کی ضرورت نہیں کہ اکیلے جانا ضروری ہے کہ جب چاہے سو گئے جب چاہے اٹھ گئے سوچیں یہ کیا بات ہوئی تو اب آئیے ذرا دوسری جنت کی طرف جس کا نام فوکیڈ(PHUKET)آپ پھوکٹ بھی کہہ سکتے ہیں۔سیاح نے جو دیکھا وہ ہی لکھا ہے من تعن یعنی کوئی لفاظی نہیں ورنہ سفرنامہ اور بھی دلچسپ ہوسکتا تھا۔پھوکٹ ایک طرے سے کوزے میں دریا ہے ایک پہاڑی علاقہ پر جیسے مری یا پھر کشمیر ایک جگہ لکھتے ہیں وہاں ہوٹل میں ہر طرح کی روم سروس مساج سے لے کر سمندر میں غوطے، ضروری کہ ساتھ میں سفرنامہ رکھیں کہ کوئی چیز رہ نہ جائے۔خوب عکاسی کی ہے کہ مستنصر حسین تارڑ اور قمر علی عباسی کو پیچھے چھوڑ دیا ہے۔اپنا اپنا رنگ ہے برش کو کیسے استعمال کیا ہے خدا کرے بیگم نے یہ سب نہ پڑھا ہو اور پڑھ لیا ہو تو معاف کرسکتی ہیں کہ بڑھاپے میں آدمی سٹھیا جاتا ہے۔اور حسن ظہیر صاحب80سے اوپر ہیں۔ذرا پڑھ لیں ثبوت کے طور پر(حسن ظہیر کو سمندر اور اسکے اردگرد بکھری رعنائیاں بے حد پسند ہیں)لکھتے ہیں ”یکایک ہم نے سامنے سے آتی ہوئی حسینہ کو دیکھا جو سوپمنگ سوٹ میں تھی وہ سیدھی ہماری سمت آئی اور ہمارے قریب بچھی ہوئی کرسی پر نیم دراز ہوگئی کرسی سے اٹکے بیگ سے کوئی مشروب نکالا اور کتاب مشروب پیتے ہوئے کتاب میں منہمک ہوگئی“اور کرتی بھی کیا ہم اس سے زیادہ نہیں بتانا چاہتے خود کتاب لے کر پڑھ لیں ہمیں کچھ نہ کہیں کہ انہوں نے رنگ برنگی تتلیوں کا ذکر بھی کیا ہے۔یہ انکے ایجنٹ کا کمال ہے۔انہیں پھوکٹ بھیج کر مال بنایا ہوگا دوستی میں موصوف نے کراچی آکر بتایا انکا کیمرہ کھو گیا لہذا وہ فیملی کو وہاں کی کوئی تصاویر نہ دکھا سکے۔یقین کر لیں سفر تمام ہوا منزلیں بھی ختم ہوئیں مگر حصار شب روز سے نہیں نکلے۔
موصوف اسکے بعد امریکہ کے سفر پر نکلے ہیں یہاں بھی انکے ایجنٹ ذیشان جعفری نے انہیں ترکش ایرکی کیسن کلاس میں بٹھا دیا۔(موجاں ہی موجاں)حسن ظہر جیسے سیاح ملیں تو کیا کہنے۔موصوف نے نیویارک قیام کیا ہمارے ساتھ قیام کیا گھومے پھرے ساحل سمندر،ٹائمز اسکوائر، وال اسٹریٹ، اسٹیجو آف برٹی، جیکسن ہائٹس(بنگلہ بازار)اور ہمارا جگہ جگہ ذکر ہے، آخر میں ہم لکھتے چلیں کہ سفرنامےCOVID-19کے وقت میں پڑھنا ضروری اس لیے ہے کہ آپ کہیں باہر نہیں جاسکتے۔
٭٭٭