عمران خان سے سیاستدان تک

0
742
مجیب ایس لودھی

مجیب ایس لودھی، نیویارک

عمران خان ایک ایسا نام ہے جسے دنیائے کرکٹ کے ساتھ فلاحی کاموں کے اعتبار سے بھی خوب جانا پہچانا جاتا ہے ، ابھی کل ہی تو بات ہے جب عمران خان 1994 ءمیں کینسر کے علاج کے لیے پاکستان میں ہسپتال بنانے کے لیے امریکہ فندز اکٹھے کرنے آئے تو امریکہ میں اوورسیز پاکستانیوں نے جی بھر کر ان کی مالی مدد کی ، چیک ، کیش ،آن لائن ٹرانزیکشنز کا ڈھیر اُمڈ آیا ، دنیا بھر سے پاکستانیوں نے عمران خان کے اکاﺅنٹ میں رقم جمع کروائی کیونکہ لوگ سوچ رہے تھے کہ اس رقم سے کینسر ہسپتال بننے کے بعد سینکڑوں پاکستانیوں کی ماﺅں ، بہنوں ، عزیز و اقارب کا مفت علاج ہو سکے گا ، عمران خان کو دنیا میں فلاحی کاموں کے حوالے سے قدر کی نگاہ سے دیکھا جاتا تھا۔میں خود بھی عمران خان کی کور کمیٹی میں شامل رہا ہوں اور لوگوں کی مالی امداد کا اچھی طرح اندازہ ہے ، عمران خان کو چاہئے تھا کہ خود کو فلاحی سرگرمیوں میں ہی مصروف رکھتے کیونکہ سیاست کے میدان میں آنے کے بعد ان کی شخصیت اور عالمی تشخص بالکل تبدیل ہوکر رہ گیا ہے جس کی وجہ سے ان کے سپورٹرز کی تعداد میں نمایاں کمی واقع ہوئی ہے ۔
اقتدار میں آنے سے قبل عمران خان نے قوم سے مہنگائی کے طوفان کو قابو کرنے ، بے روزگاری اور غربت کے خاتمے کے بلند وبانگ دعوے کیے اور اعلان کیا کہ ان کی حکومت آتے ہی پہلے 100روز میں ملک میں نمایاں تبدیلی آئے گی لیکن بعد میں موصوف کا بیان سامنے آیا کہ امریکہ کی طرح پاکستان میں بھی نئی حکومت کو عہدیداران کے چناﺅ اور پالیسی بنانے کے لیے وقت ملنا چاہئے جبکہ اقتدار میں آنے سے قبل انھوں نے کہا کہ تھا کہ ہم نے اپنی ٹیم فائنل کر لی ہے ، اقتدار میں آتے ہی انقلابی تبدیلیاں لے کر آئیں گے لیکن ایسا ہرگز نہیں ہوا ، عمران خان کو پہلے سو دنوں میں اپنے کئی وزیروں کو بدلنا پڑا ،پیپلزپارٹی کے دور میں وزیر رہ چکے حفیظ شیخ کا انتخاب کیا گیا جس سے ان کی اپنی ٹیم کی نااہلی واضح طور پر ثابت ہوتی ہے ،ملک بھر میں مہنگائی کا طوفان بپا ہے ، کوئی پوچھنے والا نہیں ہے ، بے روزگاری میں اضافے کی وجہ سے چھینا چھپٹی کے واقعات میں بے پناہ اضافہ ہوا ، غریب فاقوں پر مجبور ہو گیا ہے ، کوئی پرسان حال نہیں ہے ۔عمران خان کی حکومت کو دو سال مکمل ہوگئے ہیں جبکہ جرائم کی شرح آسمانوں سے باتیں کر رہی ہے ، خیبرپی کے میں پی ٹی آئی کے وزیر کے گھر میں ڈکیتی نے سیکیورٹی کی قلعی کھول کر رکھ دی ہے ۔
ڈسکہ ضمنی انتخابات کی بات کی جائے توپی ٹی آئی نے اپنے اور مخالفین کے درمیان نفرت اور تلخی کی دیوار کھڑی کر کے معاملہ زیادہ گمبھیر بنا دیا ، اب یہ محض سیاسی لڑائی نہیں رہی بلکہ عز ت و آن کا مسئلہ بھی بن گیا ہے ، عمران خان نے اپنی اپوزیشن جماعتوں کو عوامی محاورے کے مطابق اتنا ذلیل و خوار کر دیا ہے کہ وہ اسے ہرانے کے لیے اپنے ذاتی ، جماعتی نقصان کے لیے تیار ہو چکی ہیں دوسری جانب فضل الرحمن پی ٹی آئی کو ہرانے کیلئے اپنی کچھ نشستیں قربان کرنے کیلئے تیار ہوگئے ہیں ، دیکھا جائے تو اپوزیشن کو انتہائی حد تک دھکیل دینے میں عمران خان اور ان کے شعلہ برساتے ورزا کا مرکزی کردار ہے تاریخ میں یہ مثال ہمیں واضح طور پر بھٹو کی صورت میں ملتی ہے اور پھر1977میں انھوں نے اس کا مزہ بھی چکھ لیا یعنی سیاست اتحادی بنانے اور مخالفین کو کمزور کرنے کا نام ہے لیکن عمران خان اس کی الف ب سے بھی واقف نہیں ہیں ،یہ بات قابل غور ہے کہ عمران خان نے بڑی سمجھ ، بوجھ کے بعد کمزور ترین ، ویژن سے عاری اور میڈیا پر چند جملے بھی نہ بول سکنے والے ایم پی اے کو وزیراعلیٰ بنایا تاکہ پنجاب عمران خان کے کنٹرول میں رہے حالانکہ ان کی جگہ پرویز الٰہی کو وزیرا علیٰ بنایا جاتا تو یقینی طور پر مسلم لیگ ن ٹوٹ پھوٹ کا شکار ہو چکی ہوتی ،موجودہ حالات کا جائزہ لیا جائے تو عمران خان کے پاﺅں تلے سے زمین نکل رہی ہے ، ان کی ڈھائی سالہ کارکردگی سے کسی قسم کی خوش گمانی کا جواز باقی نہیں رہا ،ممکن ہے کوئی چمتکار ہوجائے ۔
٭٭٭

LEAVE A REPLY

Please enter your comment!
Please enter your name here