شبیر گُل
گزشتہ کئی دھائیوں سے پاکستان پر دھوکے باز ٹولہ مسلط ہے جو اخلاقی اور قومی اعتبار سے بے حس ہیں۔ وطن عزیز کا حصول لاکھوں سروں کی قربانی، ہزاروں عزتوں کی بربادی ،اور ہزاروں عورتوں کی چھاتیاں کٹنے کے بعد ہوا۔ مگر نظریہ پاکستان کے غداروں نے لاکھوں شہداءکے خون سے غداری کی۔پاکستان بنتے ھی غداروں کی بے حیائی شروع ہوئی جو آج تک جاری ہے۔ کبھی سیکولرازم،کبھی سوشلزم،کبھی پہلے پاکستان اور کبھی فلاحی ریاست کے نام پر قرآن و سنت کے غدار مسلط رہے۔ جنہوں نے نظریاتی جڑیں کھوکھلی کیں۔ اب ریاست مدینہ کے نام پر ،مساجد میں فواد چوہدری کی سرپرستی میں ڈانس کی پریکٹس۔ قوم کی شرم و حیاءا±ٹھ چکی ہے۔ جسے یہ نہیں معلوم کہ کون کون غدار قائداعظم کے پاکستان سے کھلواڑ کر رہاہے۔ انکا حال بھی بھی ان رائٹرز جیسا ہے جو ڈراموں میں پاکستان کا کلچر ، ورثہ اور ثقافت کی بجائے اپنے گھر ماحول دکھاتے ہیں۔ س±سر بہو کا عاشق، بہنوئی سالی کا عاشق اور بیٹا غیرت مند لبرل بن کر ماڈرن بننے کی کوشش میں ہے۔ خدارا ملک میں غیروں کی ثقافت اپنے گھر کا ماحول مت دکھائیں۔ وطن سے دھوکہ کرنے والے غدار ہیں۔ لوٹنے والے غدار ہیں۔ اخلاقی اور معاشی جڑیں کھوکھلی کرنے والے غدار ہیں۔ ملک میں بے حیائی ، کرپشن اور لوٹ مار کرنے والے غدار ہیں۔ بنگالی نہیں مجیب غدار تھا پختون نہیں پشتین ٹولہ غدار بلوچ نہیں خیر بخش مری اور اچکزئی غدار تھا۔ مہاجر نہیں الطاف غدار تھا ،سندھی نہیں ، سندھیوں سے غداری کرنے والے زرداری غدار ہیں پنجابی سے نوازشریف نے غداری کی۔ پختون، بلوچ، مہاجر، پنجابی، سندھی آج بھی پاکستانی گلدستے کے پھول ہیں۔ سچ تو یہ ہے غدار کو جب بھی پکڑا گیا اس نے اپنی قومیت کے پیچھے چھپنے کی کوشش کی، آپ اندازہ کریں جب بھی الطاف حسین اور اسکے مسلح ونگ کیخلاف ایکشن لیا گیا اس نے ایک ہی آواز بلند کی “مہاجروں” کو دیوار کیساتھ لگایا جارہا ہے حالانکہ مہاجر خود اس مارا ماری میں ملوث اور روزانہ بوری بند لاشوں سے بے تحاشہ تنگ تھے نوازشریف اور اسکی بیٹی کو پکڑا گیا تو ن لیگ کے بےشمار پیجز پر “پنجاب کی بیٹی” کے نام سے پوسٹیں لگائی گئیں یہاں تک کہ ایاز صادق کی طرف سے کہا گیا “جو پنجابی عمران خان کو ووٹ دے گا وہ بیغیرت ہے”منظور پشتین کو دیکھ لیں وہ بھی پختون کارڈ کے پیچھے چھپنے کی کوشش کر رہا لیکن ہمت ہے پختون قوم کی، پختونوں کی حب الوطنی کو سلام وہ خود ہی اسکو نہ صرف رد کرچکے بلکہ اسکو اب کہیں کوئی جلسہ بھی نہیں کرنے دے رہے کیونکہ پورا پاکستان جان چکا ہے ہر غدار قومیت کے پیچھے چھپ کر وار کرتا ہے۔جب عمران خان چوروں کو نہیں چھوڑونگا کہتا ہے وزیر اعظم اپنی ہر تقریر میں ریاست مدینہ کے خدوخال بیان کرتے ہیں۔ لیکن ایک فیصد ویلفئیر اسٹیٹ کا خواب دکھاتے ہیں۔ کسی نئی انڈسٹری کی اضافے کی کوشش نہیں کرتے۔ غربت کےخاتمہ بات کرتے ہیں۔ لیکن غریبوں کے لئے لنگر خانے کھول کروزیراعظم صاحب پاکستان لنگر خانے نہیں کارخانے لگانے کی ضرورت ہے۔ آپ پولیٹکل stability کی بات کرتے ہیں۔ مگر اندرونی محاذ پر آپکی ٹائیگرز فورس نے وحشی فورس ہونے کا ثبوت دیا ہے۔ یہ فورس مستقبل میں ایم کیو ایم کی طرز ذہنیت کی جماعت نظر آتی ہے۔ بیرونی طور پر ہمارے ایکشن خطے میں بڑھتی ہوئی کشیدگی اور بدلتے خیالات کے تناظر میں ایک انچ آگے نہیں بڑھیاسکے برعکس ہیں۔
یورپ کی ترقی کی مثالیں دیتے ہیں، چائنیز ماڈل کی بات کرتے ہیں۔ لیکن ان کے دور حکومت میں سی پیک کی ترقی میں ایک فیصد بھی کان نہیں ہوا۔ کشمیر ایشو کی بات کرتے ہیں مگر یو این او میں ایکبار روائتی تقریر کے بعد کسی فورم پر بات کرتے نظر نہیں آتے۔ سب سے پہلے پاکستان کا نعرہ لگانے والے جرنیل نے ملک کو بے حیائی کیطرف راغب کیا۔عمران خان نے قوم کی بچیوں کو نچوا نچوا کر ریاست مدینہ کا نعرہ لگا دیا۔کیا کنجر خانے کی داغ بیل ڈالنے والے ریاست مدینہ کا تصور کی آبیاری کرسکتے ہیں ؟
تو اسکے ساتھ بیٹھے چور “ سیانی بلی کھمنبا نوچے” کے مصداق سر ہلا کر میسج دیتے ہیں کہ عمران صاحب موقع ملنے پر آپکی تنبی اتار پھونکیں گے۔ اللہ تعالی نے کھوتے، خچر اور گھوڑے کو سواری کے لئے پیدا کیا ہے۔ لیکن ھمارا ملک وہ واحد ملک ہے جہاں گزشتہ کئی دھائیوں سے کھوتے اور خچر حکمران ہیں۔ یہ ظالم اپنے ووٹرز کے منہ پر تھوک کر ضمیر کا سودا کرتے ہیں۔ آج سینٹ کے الیکشن میں گدھے اور گھوڑے بکنے کے لئے تیار ہیں۔ موجودہ سسٹم نہ کرپشن ختم کرسکتا ہے نہ مہنگائی۔ نہ انصاف فراہم کرسکتا ہے نہ نظام تعلیم میں بہتری۔ حالات دن بدن مایوسی اور فرسٹریشن کی طرف جاتے دکھائی دے رہے ہیں۔ عوام نے تبدیلی کے نام پر بہت شوق سے ووٹ دئیے تھے لیکن تبدیلی کہیں نظر نہیں آتی۔ رنگ ساز کی طرح پ±رانے کپڑے کو رنگ کرکے تحریک انصاف کی چھتری فراہم کر دی گئی ہے۔
اسلام آباد کی سیٹ پر زرداری کا وزیر خزانہ خفیظ شیخ اور پیپلز پارٹی کا ہار چور سابق صدر گیلانی ایک دوسرے کے مدمقابل تھے۔ سینٹ الیکشن میں ووٹوں ،لوٹوں اور نوٹوں کے سوداگروں میں مقابلہ تھا۔ضمیر بیچ کر خمیر کی نشاندھی کی گئی۔ یوسف رضا گیلانی سینٹ کی سیٹ جیت گئے ہیں، حفیظ شیخ یہ سیٹ ہار چکے ہیں۔ پی ٹی آئی میں اندر کی دڑاڑیں بتا رہی ہیں کہ عمران کے مشکل دن شروع ہو سکتے ہیں۔ پی ڈی ایم کی لیڈر شپ کے نوٹ کام آگئے۔ چونکہ پی ٹی آئی کے کے بکنے والے سات ارکان نے غلط جگہ پر مارک کیا جس سے ووٹ کینسل ہوئے۔یہ پی ٹی آئی کے لئے بہت بڑی شکست ہے۔ آئندہ دنوں شور شرابے اور افراتفری کی سیاست کے ہیں۔
٭٭٭