قارئین وطن! 23 مارچ1940منٹو پارک 40 ہزار مسلم لیگیوں سے بھرا پڑا تھا ا±س وقت لاہور کی آبادی 40 ہزار تھی, ہندوستان کے طول و عرض سے قائد اعظم محمد علی جناح کی قیادت میں سب لوگ جمع تھے مولوی فضل الحق نے قرارداد لاہور پیش کی جو بعد میں قرارداد پاکستان کہلائی، کیا عظیم لوگ تھے، ا±س اسٹیج پر میرے مرحوم والد سردار محمد ظفراللہ ایڈووکیٹ کو بھی شرف حاصل تھا ،اتنی طویل فہرست ہے ،بڑے بڑے ناموں کی کہ کالم ا±سی سے بھر جائے ، آج23 مارچ1940 کو 18 سال ہوتے ہیں ، قرارداد کے پاس ہوتے ہی 7 سال کے اندر قائد کی ولولہ خیز قیادت نے برصغیر کے مفلوک الا حال لوگوں کو پاکستان کا تحفہ دیا قائد کی آنکھ بند کیا ہوئی ،لیاقت علی خان کو شہید کر دیا گیا ،پھر کیا ہوا مشرقی اور مغربی پاکستان سازشوں کی آماجگاہ بن گیا اور دیکھتے دیکھتے ان آنکھوں نے عالم پستی کے وہ مناظر دیکھے کہ وہ پاکستان ،پاکستان نہ رہا مشرق الگ ہو گیا، مغرب الگ ہو گیا مشرق بنگلہ دیش بن گیا مغرب پاکستان رہا ا±س کی وجہ کہ اس خطہ کے دس لاکھ لوگوں نے قربانیاں دی تھیں جب بزرگ ہندتوا اور انگریز ی قاتلوں کی داستان سناتے ہیں کہ کس طرح ہماری ماو¿ں، بہنوں اور بزرگوں کو نیزوں کے سامنے اُچھالا تو آنکھوں میں خون اتر آتا ہے انگریز اور اس کے گماشتوں جن کو ہم یونینسٹ کہتے ہیں ایسے ایسے کھیل کھیلے کہ پاکستان کی بھاگ دوڑ اپنے کتے نہلانے والوں کے حوالے کر دی اور بڑے بڑے سیاسی عمائیدین بونوں کی شکل میں تبدیل ہو گئے جو آج بھی ہم پر مسلط ہیں اور یہ سلسلہ اس وقت سے شروع ہوا جب ایک چھوٹے رینک کا فوجی افسر بڑا رینک بن گیا ایوب خان اور بڑے بزرگ جانتے ہیں کہ اس نے سیاست دانوں کے خوف سے ا±ن پر ایبڈو کے کیس بنائے اور جب اس واقعہ کو تاریخ کی کتابوں میں پڑھتے ہیں تو ہنسی آتی ہے کہ ہم کیسے لوگ تھے کہ رات کی تاریخی میں قوم کے حقوق پر ڈاکہ ڈالنے والا سیاست دانوں پر کرپشن کے کیسز بنا رہا ہے ،صرف اس وجہ سے کے وہ ڈرتا تھا ا±ن کی طاقت سے،
قارئین وطن! 23مارچ 1940کو 18 سال ہو گئے ہیں آج جب میں 23 مارچ کی گولڈن جوبلی کے اس اسٹیج کہ بارے میں سوچتا ہوں جس پر میں اپنے رفقا عالم خان صاحب ، میاں ریاض محی الدین صاحب ، آغا افضل صاحب اور کچھ نام حافظہ کی کمزوری کی وجہ سے بھول رہا ہوں ،ان سے معذرت کے ساتھ اب یہ بھی نہیں پتا ا±ن میں کون جی رہا ہے اور کون خالقِ حقیقی سے جا ملا کہ اس سے بڑا مذاق کیا تھا کہ اس اسٹیج پر جس کی قیادت قائد اعظم نے کی تھی ،لیاقت علی خان تھے خواجہ ناظم الدین تھے ،مادرِ ملت تھیں مشرقی اور مغربی حصوں کے نامور لیڈر بیٹھے تھے، محمد علی جناح کی قیادت میں اور یہاں نواز شریف محمد خاں جونیجو ، فرنٹئر کا گورنر جو ہیروئین اسمگلر تھا اور تقریباً وہ لوگ براجمان تھے جن کا مسلم لیگ اور پاکستان کی تحریک سے کوئی تعلق نہ تھا اس میں ایک مثال آج کا احسن اقبال اور نواز کے چمچوں میں تھے جن کے بزرگ قائد اعظم اور پاکستان کے سخت مخالف تھے بقول شاعر “ جھکنے والوں نے رفعتیں پائیں “ اس اسٹیج پر اَدھر ا±دھر گھوم رہے تھے اس اسٹیج کا تقدس اگر تھوڑا بہت قائم رہا تو وہ چوہدری محمد حسین چھٹہ صاحب مرحوم اور اقبال احمد خان صاحب اور کچھ بزرگوں کی وجہ سے ، ا± س گولڈن جوبلی کا یاد گار منظر ایک ہی تھا کہ محمد خان جونیجو، نواز شریف اور ہیروئین اسمگلر کی تقریروں پر تو بڑا شور شرابہ کیا لیکن جب ایم کیو ایم کا بانی الطاف حسین تقریر کرنے آیا تو ایک سقوط کا عالم تھا ایسے لگتا تھا کہ وہ پنڈال میں بیٹھا ہر شخص کی زبان بول رہا ہے ان کے مسائل کی بات کر رہا ہے ،ایسے لگا ہمارے دکھ درد کا مداو اس کے ہاتھ میں ہے اور یہ کوئی اوتار ہے جو بول رہا ہے بس دیکھتے دیکھتے وہ جو ایک الفت تھی مان تھا لوگوں کے دلوں میں وہ دھڑام سے ٹوٹ گیا کہ جب “ پی آئی اے” کا جہاز وہاں سے گزرا اس کی پنجائیت کے خلاف نفرت جاگ اُٹھی ،اس ایک جملے سے کہ یہ پی آئی اے نہیں بلکہ پنجاب ائیر لائین ہے اس کو کہتے ہیں ایک عالم پستی ۔
قارئین وطن! اس سے بڑی پستی کیا ہوگی کہ ہماری سیاست کہ 53 سال فوجی ڈیکٹیٹر کھا گئے اور53 سال نواز شریف اور زرداری کی نظر ہو رہے ہیں اور ابھی تک یہ دو خائین اور لٹیرے ہم پر بلواسطہ اور بلاواسطہ حکومت کر رہے ہیں اور اب اپنی اولادوں کو ہم پر مسلط کر نے کی تگ و دو پر ہیں، اپنے قارئین اور سیاست پر نظر رکھنے والوں سے گزارش کروں گا کہ بخوبی جائیزہ لیں کہ 18 سالوں کا سفر ہم نے کیسے طے کیا کہ آج ایٹمی طاقت ہونے کے بعد بھی ہم کہاں کھڑے ہیں ،ہمارے قومی ادارے کیا اپنی اپنی ذمہ داریوں کو پورا کررہے ہیں ،کیا ہم نے ا±ن مقاصد کو حا صل کیا ہے جس کا وعدہ قائد اعظم نے کیا ، آخری 53 سالوں کا ہی حساب کتاب کر لیں کہ کیا افواج پاکستان نے سرحدی اور نظریاتی محاذوں کی نگرانی میں کوئی کمی تو نہیں کر رکھی ,آج جس طرح ہماری قومی سلامتی پر ایک خائین کی بیٹی جو ملک سے مفرور بھی ہے کی دھجیاں اڑا رہی ہے ،کیا وہ قابل برداشت عمل ہے ، عمران خان کی حکومت جو ایک ہوا کا تازہ جھونکا تھا کیا وہ اپنے منشور پر پورا اتر رہی ہے ،مہنگائی کا تو ہم سنتے تھے کہ آسمان سے باتیں کر رہی ہے لیکن پتا نہیں کون سے آسمانوں سے بھی آگے چلی گئی ہے ،اب یہ سمجھ نہیں آرہی کہ کون اس تازہ ہوا کے جھونکے کو تبدیل کر رہا ہے ، آج اگر ہم ۸۱ سال کے اس سفر کو درخشاں بنانا چاہتے ہیں تو سیاست کو سیاست کے پیٹرن پر چلانا ہو گا اور سب سے پہلے ہماری افواج اور اس کے اہم اور خاص اداروں کو پاکستان کے اندرونی اور بیرونی دشمنوں سے نجات کا بندوبست کرنا ہو گا تاکہ حکومت کو اپنے منشور پر گامزن ہونے کو موقعہ ملے اور ہم ترقی کی راہ پر چلنا سیکھیں ،صرف ہماری فوجی پریڈ ہی حل نہیں ہے، ہمیں 23 مارچ کو تجدید عہد کرنا چاہئے کہ پاکستان کو زندہ اور پائندہ باد رکھنے کے لئے قومی اداروں کو مضبوط بنیادوں پر تعمیر کرنے کی ضرورت ہے یہی اگلے 18 سال درخشاں بنا سکتے ہیں ،پاکستان زندہ باد!
احباب سے گزارش ہے کہ کالم کو اپنے واٹس آپ فرینڈز کو فارورڈ کریں تاکہ پڑھنے والوں کا دائرہ بڑھے، شکریہ!
٭٭٭