قارئین وطن! آج کل لکھنے لکھانے سے بہتر ہر کوئی یوٹیوب پر چلنے والے وی لاگز میں زیادہ دلچسپی لے رہے ہیں میں بھی آجکل / وی لاگز کو بڑی دلچسپی کے ساتھ دیکھ اور سن رہا ہوں سب سے زیادہ ہاٹ نجم سیٹھی سے سوال ہے میں پہلے بھی عرض کر چکا ہوں کہ نجم سیٹھی صاحب100 پرسنٹ حکومت اور اسٹیبلشمنٹ کی لائین ٹو کرتے ہیں اس حوالے سے حکومتی اور فوجی چال بازیوں کے بارے میں اور انٹرنیشنل افئیرز اور ان کی پاکستان کے سیاسی معاملات میں دخل اندازی کی سوجھ بوجھ کی خبر کا پتا رہتا ہے درجن بھر سے زیادہ وی لاگرز تو بڑی بڑی شہ سرخیاں چسپاں کر کے عمران خان کے بارے آئے دن تیل چھڑکا کر جھوٹی سچی خبریں لگا کر سیاسی ماحول کو گرم رکھنے کی کوشش کرتے ہیں لیکن ان کی خبر پہاڑ کھودا چوہا نکلا کے مصداق ہوتی ہیں حالانکہ کے سب حکومت کی بڑھا چڑھا کر ان کی کارکردگی پیش کرتے ہیں پھر پتا نہیں حکومت یو ٹیوبرز کے خلاف کیوں کالا قانون بنا رہی ہے خاص طور پر کورٹ رپورٹنگ اور رپورٹرز کے خلاف وزیر قانون اور وزیر انفارمیشن دونوں تارڑ صاحبان تو کھلم کھلا جوڈیشری کے خلاف محاذ کھولے بیٹھے ہیں لیکن اب قانون اور آئین کی بالا دستی پر یقین رکھنے والے جج صاحبان وطن کو ایک نئے عزم کے ساتھ آراستہ کریں گے انشاللہ!قارئین وطن! کچھ دنوں سے سرکاری وی لاگرز نے عمران خان اور بنگلہ دیش کے آنجہانی وزیر اعظم شیخ مجیب رحمان سے موازنہ کیا جا رہا ہے ،تاریخ کے ادنی طالبعلم اور سیاسی کارکن کی حیثیت سے اس وقت کے حالات اور آج کے حالات سے خوب واقف ہوں اس میں کوئی شک نہیں کہ شیخ مجیب ایک محب وطن اور مقبول ترین رہنما تھا اس کا قصور صرف یہ تھا کہ وہ مشرقی اور مغربی پاکستان کے پسے ہوئے لوگوں کی بات اور آئین اور قانون کی بالادستی کی بات کرتا تھا جو اس وقت کے جابر سلطان مارشل لا ڈکٹیٹر ایوب خان کو اچھی نہیں لگتی تھی اور اس نے عمران خان پر جس طرح بھونڈے کیس بنوائے گئے ہیں اسی طرح کا ”اگر تلہ سازش کیس ”بنایا اور اس کے اس کے سینے پر غدار کا تمغہ لگایا لیکن کیا ہوا اس وقت کی سیاسی قیادت سے ایوب نے جب معاملہ طے کرنے کے لئے ”گول میز کانفرنس”کا انعقاد کیا لیکن اپوزیشن نے اس بات پر شمولیت سے انکار کر دیا کہ جب تک مجیب الرحمان شریک نہیں ہو گا ہم نہیں بیٹھیں گے، ایوب خان جو توپ و تفنگ سے لیس تھا اپوزیشن کے سامنے سر خم کیا اور اسی شیخ مجیب کے سامنے بیٹھا جس کو وہ غدار کہتا تھا تو ڈائیلاگ کن کے درمیان ہوا جرنل اور اپوزیشن کے درمیان، عزیزان سیاست عمران خان آج کی حقیقت ہے گو آج مشرقی پاکستان تو ہمارے ساتھ نہیں ہے ،سب سے مقبول لیڈر ہے اور اس کے ساتھ آج کا میر سپاہ بغیر مارشل لا لگائے ڈکٹیٹر ی ٹون میں وہی کچھ کر رہا ہے جو ایوب خان کر رہا تھا آج اسی طرح مقدمے بنائے جا رہے ہیں جن کا نہ کوئی سر ہے نہ پیر ہے کالم کی تنگ دامنی کی وجہ سے زیادہ کچھ نہیںلکھ سکتا ہوں، مجبور ہوں صرف اتنا کہوں گا کہ جرنل عاصم منیر صاحب آپ کو اپنی روش ٹھیک کرنی ہوگی کہ اس سے پہلے کہ عوامی ریلہ آپ کو مجبور کردے کے ڈائلاگ ہوں گے تو صرف عوامی اُمنگوں کے ترجمان عمران خان سے ہوں گے اس سے پہلے کے ایوب خان کی طرح شرمندگی ہو۔
قارئین وطن! آج گونگے اور بہرے لوگوں کے ہجوم میں پاکستان کی سب سے بڑی پولیٹیکل کارپوریشن مسلم لیگ نون نے ایک بار پھر نوا ز شریف کو صدر منتخب کیا ہے ہماری سیاست کی قحط الرجالی کا ایک اور منظر کان پک گئے ہیں سنی باتوں کا کیا سننا ، کہی باتوں کا کیا کہنا ، لیکن جہاں گونگے اور بہرے بیٹھیں ہوں سب چلتا ہے اپنے سنہری خطاب میں ایک لفظ اوپر نہ نیچے سابق چیف جسٹس نثار کی شامت اور آخر میں تان ٹوٹی عمران خان کی بنی گالہ کی سڑک پر عمران خان کو دبا کر برا کہا گیا لیکن اس طاقت کا نام نہیں لیا بقول جن کی وہ پیدا وار تھا منچھی احسن اقبال نے کارناموں کی لمبی گردان سنائی ایک بات جو قابل نوٹ تھی وہ جانے والے صدر اور فارم کے وزیر اعظم شہباز شریف کے چہرے پر ججوں کے انقلاب کا خوف صاف نظر آرہا تھا اور اس کی پٹاری میں عمران خان نیازی کو گالیاں دینے کے علاوہ کچھ بھی نہیں تھا اب دیکھتے ہیں نون کے صدر صاحب ملک کی سیاست میں کون سا نیا رنگ گھولتے ہیں بس پاکستان کی خیر مانگیں !
٭٭٭