جاوید رانا، بیوروچیفشکاگو
وطن عزیز میں کرونا کی تیسری لہر انتہائی شدّت اختیار کر گئی ہے۔ متاثرین کی شرح جو گزشتہ ماہ 3 فیصد پر تھی اس وقت مجموعی طور پر 9 فیصد تک پہنچ چکی ہے جبکہ لاہور سمیت بعض شہروں اور علاقوں میں شرح 10 فیصد سے بھی بڑھ چکی ہے۔ صورتحال یہ ہے کہ ہسپتالوں میں کرونا مریضوں کیلئے بستروں اور وینٹی لیٹرز کی گنجائش ختم ہونے کو آگئی ہے، روزانہ تین ہزار متاثرین کی اوسط ہو گئی ہے۔ ابتلا و تشویش کی اس گھڑی میں اپوزیشن کا رویہ ہنوز منافرانہ اور غیر دانشمندانہ ہے۔ وزیراعظم اور خاتون اول کے کرونا سے متاثر ہونے کی اطلاع پر اپوزیشن خصوصاً مولانا ڈیزل کا رویہ ایسا تھا جو دشمن کا بھی نہیں ہو سکتا ہے۔ اس بد روح اور شیطان صفت انسان نے وزیراعظم کی بیماری کو الیکشن کمیشن میں 22 اپریل کو فارن فنڈنگ کیس میں پیشی سے گریز کا بہانہ قرار دے کر بیماری کا مذاق اُڑانے کی کریہہ حرکت کر کے اپنی دینی و سیاسی رہی سہی اوقات بھی خاک میں ملا دی اور قوم کی نفرت و تضحیک کا نشانہ بن رہا ہے۔ وزیراعظم کی صحت و شفائے کُلّی کیلئے تو پاکستان سے لے کر دنیا بھر میں پھیلے ہوئے سارے پاکستانیوں سمیت دنیا بھر کے حکمرانوں، قائدین و ہر شعبہ¿ حیات کے افراد حتیٰ کہ پاکستان کا دشمن اول مودی بھی دعائیں اور خواہشات کا اظہار کر رہا ہے سچ ہے عزت و ذلّت اللہ رب العزت کا اختیار ہے۔ کپتان وزیراعظم کو اللہ تعالیٰ نے ورلڈکپ سے لے کر وزارت عظمیٰ تک عزت سے نوازا ہے جبکہ ڈیزل کے نصیب میں ہر دور اقتدار میں شرکت اور پی ڈی ایم کی نام نہاد سربراہی تک ذلت ہی آئی ہے۔ کچھ یہی حال نوازشریف اور اس کے خاندان کا ہے کہ تین بار کے اقتدار، اربوں کھربوں کے فراڈ اور نخوت بھرے اس خاندان کی قسمت میں ذلت کا طوق ہی ہے۔ ان لوگوں کا ہر پینترہ خود ان کے گلے کی ہڈی بن جاتا ہے۔ اس کی بنیادی وجہ یہی ہے کہ اپنے مفاد کیلئے یہ نہ عوام سے مخلص ہیں، نہ وطن کے وفادار ہیں اور نہ ہی انسانیت کے کسی معیار پر پورے اُترتے ہیں۔
2018ءکے انتخابات میں اپنی بدترین شکست اور عمران خان کی کامیابی پر دشمنانہ روئیے اپنائے ہوئے اور مسلسل موجودہ حکومت کےخلاف اپنی منفی مہم میں مصروف ہیں۔ اپنی ان کوششوں میں انہوں نے ریاستی اداروں خصوصاً عسکری و انصاف کے اداروں کو ہدف بنایا ہوا ہے۔ نوازشریف اور اس کی بیٹی تو اس حد تک پہنچ چکے ہیں کہ وہ بھارت اور مودی کے ایجنڈے کے تحت ہمارے عسکری سربراہان کےخلاف بھی زہر اُگلنے میں کوئی عار نہیں پاتے۔ کچھ یہی حال مولانا ڈیزل کا بھی ہے اپنے سارے ہتھکنڈے آزمانے کے باوجود یہ مخالف عمران خان اور ریاستی اشرافیہ کا کچھ نہیں ؓگاڑ سکے ہیں۔ PDMکا ڈرامہ بھی اسی منفی لائحہ عمل کا حصہ ہے لیکن ان کے سارے منصوبے ناکام ہی ہوئے ہیں۔ جھوٹوں کا یہ اتحاد بھی لرزہ بر اندام ہے۔ دراڑیں پڑ چکی ہیں اور منافرت کی بنیاد پر کھڑی پی ڈی ایم کی یہ عمارت گرنے کو ہے۔
اس وقت صورتحال یہ ہے کہ پی ڈی ایم کے غبارے سے ہوا تقریباً نکل چکی ہے دونوں سیاسی پارٹیوں پی پی پی اور نواز لیگ کے درمیان اختلافات کی خلیج گہری ہو گئی ہے۔ پیپلزپارٹی نے اپنے پتّے ہوشیاری سے کھیل کر اپنے اسٹیکس کو بچا لیا ہے اور مولانا و مریم اپنے ایجنڈے کو ناکام ہوتا ہوا جان کر غصے، جھنجھلاہٹ اور بوکھلاہٹ کا شکار ہیں۔ پی ڈی ایم کے گزشتہ اجلاس میں پیپلزپارٹی کے استعفوں کے ایشو پر استدلال کے باعث مولانا تو اس گیت کے مکھڑے کا اظہار بن گئے تھے کہ جو درد ملا اپنوں سے ملا، غیروں سے شکایت کون کرے جبکہ مریم نے ٹوئیٹ کے ذریعے پی پی پی کو اسٹیبلشمنٹ کا متبادل امیدوار قرار دیا۔ بلاول نے اس کا بھرپور جواب دیتے ہوئے انہیں یاد دلایا کہ اسٹیبلشمنٹ کی متبادل و سلیکٹڈ لاہور کی ایک جماعت ہی رہی ہے اور پیپلزپارٹی ہمیشہ جمہوری و پارلیمانی جدوجہد کی تاریخ رکھتی ہے۔ پی ڈی ایم کے غیر فطری اتحاد میں ٹوٹ پھوٹ اور دونوں پارٹیوں یعنی پیپلزپارٹی و نواز لیگ میں اختلاف کا موجودہ سین سینیٹ میں قائد حزب اختلاف اور این اے 249 میں پی ڈی ایم کے امیدوار کی نامزدگی پر آکر اٹکا ہے۔ دوسری جانب مریم نواز پر نیب نے ضمانت کی منسوخی اور 26 اپریل کو پیشی کی تلوار لٹکا دی ہے۔ پیشی کی خبر نے مریم نواز کو خبط الحواس کر ہی دیا ہے مولانا بھی کھسیانی بلی کی طرح 26 مارچ کی لانگ مارچ کے تعطل کی کھسیاہٹ مٹانے کیلئے کھمبا نوچنے اور بعض عمرانیہ کے ناطے مریم کی پیشی پر پی ڈی ایم کے کارکنوں اور لیڈروں سمیت نیب پر حملہ آور ہونے کا دعوی کر رہے ہیں۔
اپنی خود غرضی اور عمران ہٹاﺅ مہم میں یہ غرض کے اندھے ملک میں وائرس کے بڑھتے ہوئے اثرات اور لوگوں کی جانوں سے کھیلنے کے مذموم اقدام سے بھی گریز کرتے نظر نہیں آتے۔ سچ تو یہ ہے کہ پی ڈی ایم کے جلسوں میں بھی انہیں کبھی عوام کا خیال نہیں آیا۔ ریکارڈ اس حقیقت کا شاہد ہے کہ اپنی تمام تر کمپیئن میں انہوں نے صرف حکومت اور ریاستی اداروں کےخلاف اور اپنے اقتدار کے حصول کا بیانیہ ہی الاپا ہے، عوام کی بہتری یا انہیں درپیش معاشی، معاشرتی دُشواریوں کا اگر ذکر بھی کیا ہے تو وہ حکومتی مخالفت میں ہی کیا ہے۔ بہر حال اب یہ بات تو واضح ہو گئی ہے کہ پی ڈی ایم کا وجود ختم نہ بھی ہوا ہو، مو¿ثر ہر گز نہیں رہا اور اس کے باعث کم از کم موجودہ حکومت کو کوئی خدشہ نہیں۔ کپتان نے گزشتہ دنوں اپنا دوسری اننگ کا مو¿قف ظاہر کر دیا ہے۔ ہماری استدعا یہ ہے کہ مخالفین پر مو¿ثر باﺅنسرز و سوئنگرز تو کامیاب رہے، اب اپنے بیٹسمینوں پر توجہ دے کہ وہ مو¿ثر بیٹنگ کر کے عوامی فلاح اور ملک کی ترقی کا ٹارگٹ حاصل کر سکیں۔ آنےوالی صورتحال میں ہمارے کپتان کو عوام کے مفاد و بہتری کے معاملات پر اپنی توجہ مرکوز کرنے کا چیلنج درکار ہوگا ۔جہاں تک ان خود غرضوں اور مفاد پرستوں کا تعلق ہے ان کیلئے اقتدار کی دیوی محض ایک خواب ہے۔ البتہ تبدیلی حکومت کا عوام سے اغماض مخالفین کیلئے نئی صورتحال کا باعث ہو سکتا ہے۔ آئینی، قانونی و انتظامی اصلاحات یکطرفہ نہیں ہو سکتیں، ایسی جمہوری قوتوں سے تعاون رکھنا چاہیے جو پارلیمان و جمہوریت کی داعی و حامی ہیں۔
٭٭٭