کچھ عرصے سے عورتوںکے حقوق کی جنگ کچھ بھی چل رہی ہے اور عورتیںاپنے بارے میں سوچنے بھی زیادہ لگی ہیں ، آج میںاپنے اس مضمون کے حوالے سے عورتوں کی صحت کے بارے میں گفتگو کروں گی۔سب سے پہلے تو عورتیں خود ہی اپنی صحت کا خیال نہیں رکھتی ہیں۔نہ شادی سے پہلے اور نہ ہی شادی کے بعد جب وہ ایک لڑکی کی زندگی گزار رہی ہوتی ہیں تو ان کو محض اپنے ظاہری حسن سے لگاﺅ ہوتا ہے وہ کیسی زندگی گزار رہی ہیںوہ کیسی لگ رہی ہیں۔ان کا رنگ گورا لگنا چاہئے۔ان کے بال خوبصورت لمبے ہونے چاہئیں۔ان کے کپڑے نئے ڈیزائن کے ہونے چاہئیں۔مہنگا میک اپ کپڑے اور جوتے ہی ان کا خواب ہوتا ہے جولڑکیاں ان باتوں کو اہمیت نہیں دیتی ہیں وہ کسی اور کام میں الجھی ہوتی ہیں۔کھانا پکانا،صفائی ، ستھرائی وغیرہ مگر کوئی بھی سنجیدگی سے اپنی صحت کی طرف توجہ نہیں دے رہی ہوتی۔اس کے لیے ورزش کی ضرورت اگر محسوس ہوتی ہے توفوراً یا تو بڑا پروگرام بنتا ہے کے ہم تو جمنازیم جائیں گے ورنہ نہیں۔حالانکہ اپنی صحت برقراررکھنے کے لئے ایک نوجوان لڑکی کے لیے اتنا ہی کافی ہے کے وہ وقت پر سوئے وقت پر اٹھے۔مناسب خوراک لے پڑھنے لکھنے کے اوقات مقررہوں۔دوستوں سے ملنے ان سے فون پر بات کرنے کے لیے رات بھر نہ جاگیں۔ہلکی پھلکی ورزش کریں اپنے اندر خون کی کمی نہ ہونے دیں۔ہڈیوں کا خیال رکھیں نظر کا خیال رکھیں نظام ہضم کا خیال رکھیں۔یہ سب اچھی عادتیں آپ کے لاابالی پن کو ختم کرتی ہیں اورآئندہ عمر میں بھی آپ کو صحت مند رکھتی ہیں۔شادی کے بعد بھی خواتین اپنے آپ کو یہ سوچ کر نظر انداز کر دیتی ہیںکے ابھی تو ہم جوان ہیں۔بچے ہوتے ہی ہر طرح کے کام کے لئے کھڑی ہوجاتی ہیں۔بڑے بوڑھوں کی نصیحتوں کو نہیں سنتی ہیں۔اس حد تک محنت مشقت کرتی ہیں کے ہڈیوں کا ڈھانچہ ہو جاتی ہیں یا بہت موٹی ہوجاتی ہیں۔اپنے بچوں کی صحت اور شوہر کی صحت کا اتنا خیال کرتی ہیں کے اپنی صحت گرا لیتی ہیں۔اس لیے ہر بچے کے بعد اپنی بھی طرف توجہ کریں۔اچھا کھائیں کم سوچیں کچھ معاملات اللہ پر بھی چھوڑ دیں جب اس نے پیدا کیا ہے تو وہ بچوںکا خیال بھی کرےگا۔اگر کہیں کوئی کمزوری محسوس ہو سر میں درد یا اور کوئی پھوڑا پھنسی ڈاکٹر کودکھائیں ٹالیں نہیں۔ہم ہر وقت دوسروں سے حقوق مانگتے رہتے ہیں مگرخود اپنے ہی حقوق سے غافل ہیں۔پہلے ہم اپنا خیال خود تو رکھیں پھر دوسروں سے امید رکھیں۔ہماری جسمانی صحت کے ساتھ ہماری ذہنی صحت بھی بہت ضروری ہے۔اپنے آپ کو منفی خیالات سے بچائیں۔اپنے اوپر ترس بھی نہ کھائیں۔ہر طرح کے ذہنی دباﺅ کا علاج اللہ پر یقین ہے بہت زیادہ سوچنے سے بھی ہر طرح کی جسمانی بیماری شروع ہوجاتی ہے۔اور آخر میں یہ کیوں گی کے عورتوں کے بارے میں بہت کم ڈاکٹر سنجیدہ ہوتے ہیں۔جب وہ کسی علاج کے لیے کسی ڈاکٹر سے رجوع کرتی ہیں تو وہ بہت عام سے مشوروں سے نواز دیتے ہیں۔جیسے وہ موٹی ہو رہی ہوں تو کم کھانے کا مشورہ دے دیا جاتا ہے کوئی ان کے ہارمون وغیرہ چیک نہیں کرتا۔اگر وہ بچہ چاہ رہی ہوں تو اصل علاج کی طرف بہت کم ڈاکٹر آتے ہیں۔دوائیاں فوراً شروع کردی جاتی ہیں بچہ ہونے کے بوقت ذرا بھی کوئی تاخیر ہو فوراًآپریشن کر دیا جاتا ہے۔اگر دوچار دفعہ درد کی شکایت کردی تو وہم کا شکار ہیں کہہ کر بات ختم کر دی جاتی ہے۔یا پھر درد کی دوائیں دے کرعلاج کردیا جاتا ہے۔غرضی کے عورت کے علاج اس کی صحت کے بارے میں بہت ہی کم سوچا جاتا ہے۔
اس لیے میں یہی کہوں گی کے عورت جہاںاپنے دوسرے حقوق کی بات کرتی ہے وہیں اسے اپنے ڈاکٹر سے بھی سوال جواب کرنا آنا چاہئے۔تاکے وہ اپنی صحت کو محض دوسروں کے تجربے کی نذر نہ کرے۔ڈاکٹر کو پوری بات بتائیں اوراگر وہ پوری بات نہ سنے تو اس کو اس طرف متوجہ کریںکیونکہ عورت کی صحت پر تو ڈاکٹر بھی توجہ نہیں دیتے ہیں۔
٭٭٭