شہباز!!!

0
521
عامر بیگ

دنیا کے 13ویں بڑے بزنس پروگرام میں جب انٹرویو کے لیے یونیورسٹی آف نبراسکا بلا کر مجھ سے سوال پوچھا گیا کہ لیڈر شپ کیا ہوتی ہے؟ ایک اچھے لیڈر میں کونسی خصوصیات ہونی چاہئیں ؟اور آپ کی نظر میں کونسا لیڈر ہے جو ان خصوصیات پر پورا اترتا ہے تو سب سے پہلے میرے ذہن میں جو شخصیت آئی وہ رسالت مآب صلی اللہ علیہ وسلم کی تھی جو کچھ میرے ذہن اور دل میں تھا سب بول ڈالا پھر نیلسن مینڈیلا آیا اور آخر میں عمران خان کے بارے میں حافظے میں جو کچھ تھا کھل کے بیان کیا ۔کردار، ثابت قدمی اور فرنٹ سے لیڈ کرنے کی صلاحیت کو سراہا گیا اور مجھے کالج آف بزنس ایڈمنسٹریشن یونیورسٹی آف نیبراسکا میں پوسٹ گریجوایٹ کی کلاس کے پہلے سیمسٹر میں داخلہ مل گیا جہاں امریکن، ڈچ، انڈین، پاکستانی اور بنگلہ دیشی پروفیسرز سے بزنس کے طور طریقے سیکھنے کے ساتھ لیڈر بننے کی تربیت بھی لیتا رہا ۔ وہیں سے پتا چلا کہ میڈیکل کی تعلیم کی اپنی اہمیت پر اصل کام کا علم تو بزنس اور لیڈرشپ ہے کہ جس سے نہ صرف روٹی روزی کمانے کے ایک ہزار ایک طریقے سیکھے بلکہ ایجاد کیے جا سکتے ہیں ۔پوسٹ گریجوایٹ پروگرام دراصل لیڈرانہ خصوصیات تلاش کرنے اور ان کو پالش کرنے کے لیے ہیں ایسے لیڈر جو بعد میں گلوبل ہیڈ بنتے ہیں، گوگل، ایمزون، ایپل ،لاک ہیڈ مارٹن، بوئنگ اور مائیکرو سافٹ جیسی کمپنیاں بناتے اور سنبھالتے ہیں کئی ایک تو ملکوں کی قیادت بھی کرتے ہیں ،1905 میں کنگ ایڈورڈ ہشتم کے سنگا پور میں قائم کردہ میڈیکل کالج جو1962 میں یونیورسٹی آف ملایا کوالالمپور ملائشیا بنا جس کی آجکل پوری دنیا میں رینکنگ انسٹھویں نمبر پر ہے اور اسی یونیورسٹی سے مینجمنٹ اینڈ لیڈرشپ میں دو ہزار آٹھ میں پی ایچ ڈی کرنے کے بعد کومسیٹس یونیورسٹی میں اسسٹنٹ پروفیسر اور پھر جی ایز کالج آف بزنس ایڈمنسٹریشن یونیورسٹی آف الی نوائے شیمپین الی نوائے میں دو ہزار انیس تک کلینیکل اسسٹنٹ پروفیسر آف بزنس ایڈمنسٹریشن کی پوسٹ سے وطن عزیز کی خدمت کرنے کے لیے پاکستان جانے والے ڈاکٹر شہباز گل صاحب جو کہ پہلے وزیر اعلیٰ پنجاب عثمان بزدار کی معاونت کرتے رہے اور آجکل وزیر اعظم پاکستان عمران خان کے ساتھ معاون خصوصی کے فرائض بڑے احسن طریقے سے انجام دے رہے ہیں ۔عید کی چھٹیوں میں امریکہ کا پانچ روزہ طوفانی دورہ کرنے والے ڈاکٹر گل نیو جرسی، واشنگٹن ڈی سی، الی نوائے اور نیویارک میں مقیم پاکستانیوں کا لہو گرمانے کے ساتھ عمران خان اور انکی حکومت کی بلند الفاظ میں تعریف کرتے نظر آئے جس پر بہت سے حلقے پریشان بھی ہوئے جب گل صاحب نے حقائق عوام کے سامنے رکھے تو لوگوں کی آنکھیں کھلیں جہاں بھی گئے داستاں چھوڑ آئے کے مصداق جاتے جاتے نیو یارک میں جٹ کا کھڑاک بھی کر گئے ۔موصوف سنیئر صحافی عظیم ایم میاں جو بڑے بھائی کی طرح شفقت فرماتے ہیں کے ایک کومینٹ سے بھرے سوال پر فیصل آبادی لہجے میں کرارا سا جواب دینے سے بھی نہیں چونکے ،تفصیل تو وائرل کی گئی ویڈیو میں موجود ہے جو یقیناً دوسو کے قریب صحافی حضرات کی کاوش ہے لیکن یہاں مختصرا عرض کر دینا ضروری سمجھتا ہوں امریکہ میں چاپلوس صحافت جو سو دوسو ڈالرز کی محتاج ہے کے ساتھ لگی لپٹی رکھے بغیر بھی کچھ صحافی دبنگ طریقے سے عہدے اور لہجے کی پروا کئے بغیر سوال داغ دیتے ہیں، شہباز گل سے کیے گئے سوال اور کومینٹ سے پہلے باقاعدہ تمہید باندھی گئی لیکن جواب لینے والے بھول گئے کہ فیصل آبادی سے اس طرح کے سوالات کر کے جائیں گے کہاں؟ سوال میں اگر تضحیک کی آمیزش ہوگی تو جواب بھی اتنا ہی درشت ملے گا ۔ڈاکٹر کا ماضی گواہ ہے وہ لگی لپٹی رکھے بغیر کھل کر بولنے کا عادی ہے اور یہی اسکا طرۂ امتیاز بھی ہے ۔میاں صاحب نے ڈاکٹر شہباز گل صاحب اور ڈاکٹر فردوس عاشق اعوان صاحبہ کے بارے میں سوال نما کومینٹ کیا جس کا جواب انہیں ظاہر ہے کہ سخت کومینٹ کی صورت میں ملا ۔میرا ننھیال فیصل آباد سے ہے جہاں دودھ پیتا بچہ ڈکار کی جگہ جگت لگا کر دودھ ہضم کرتا ہے بہرحال جو ہوا برُا ہوا، بدمزگی سے بچا جاسکتا تھا اگر ڈاکٹر صاحب بھی ہاتھ ہلکا رکھ لیتے بعد میں ایک نجی تقریب میں ڈاکٹر گل نے میاں صاحب کی بزرگی کا پاس رکھتے ہوئے سب کے سامنے معذرت بھی کر لی مگر کہے گئے کومینٹ سے دست بردار ہونے پر راضی نہ ہوئے۔ اللہ کی اللہ جانتا ہے مگر پہلے کی طرح ابھی سے پشین گوئی کرتا ہوں ڈاکٹر گل لیڈر شپ کی آخری ڈگری رکھنے والا مستقبل کا ایک بڑا لیڈر ہے جس کی تربیت خان اپنے ساتھ رکھ کر خود کر رہا ہے جیسے وسیم ،وقار اور مْشی کی کی تھی۔
٭٭٭

LEAVE A REPLY

Please enter your comment!
Please enter your name here