اسرائیلی ٹارگٹ حملہ…حسن نصر اللہ شہید!!!

0
3

حسن نصراللہ کی شہادت کے بعد اسرائیل میں ہائی الرٹ ہے اور حزب اللہ یا کسی ملک کی کارروائی سے نمٹنے کے لئے امریکی افواج کو تیار رہنے کا حکم دیا گیا ہے۔ لبنان کے دارالحکومت بیروت پر اسرائیلی حملے میں حزب اللہ کے سربراہ حسن نصراللہ شہید ہو گئے ہیں۔ حسن نصراللہ زمین سے چودہ منزل نیچے بنائے گئے بنکر میں تھے جب اسرائیل نے بنکر بسٹر بموں سے حملہ کیا۔اسرائیل نے اس ٹارگٹ حملے کے بعدمشرق وسطی ، ایران اور علاقے کے دیگر مقامات پر مزید ٹارگٹ حملے کرنے کا عندیہ دیا ہے۔دوسری جانب امریکی صدر جو بائڈن نے حملے کو اسرائیل کا حق دفاع قرار دے کر اس کی حمایت کی ہے۔ اسرائیلی فوج کی طرف سے ٹارگٹ کلنگ کے واقعات ایک تسلسل کے ساتھ سامنے آتے رہے ہیں ۔ حماس کے رہنما جمیل جد اللہ (اکتوبر 2001)، محمود ابو ہنود (نومبر 2001)، صلاح شھادے (جولائی 2002)، ابراہیم المقدمہ (مارچ 2003)، اسماعیل ابو شناب نشانہ (اگست 2003) نشانہ بنے۔شیخ احمد یاسین (مارچ 2004)، عبدالعزیز الرنتیسی (اپریل 2004) اور عدنان الغول (اکتوبر 2004)میں شہید کئے گئے۔ سب کو دوسرے انتفادہ کے دوران نشانہ بنایا گیا۔ایرانی سپہ سالار جنرل قاسم سلیمانی اور حماس کے رہنما اسماعیل ہنیہ کی اسرائیل کے ہاتھوں شہادت حال ہی کے واقعات ہیں۔ اسرائیلی سیکورٹی فورسز نے ماضی میں سرکردہ فلسطینی مجاہدین کو کئی دوسرے طریقوں سے ہلاک کیا ہے، تاہم سرکاری طور پر اس کی کبھی تصدیق نہیں کی گئی ۔متعدد اہداف پر مشتمل دیگر قابل ذکر ٹارگٹ کلنگ میں بلیک ستمبر آرگنائزیشن اور پی ایل او کے اہلکاروں کے خلاف آپریشن راتھ آف گاڈ شامل ہیں ۔ 1973 میں بیروت میں PLO کے سرکردہ رہنماوں، یعنی محمد نجار، کمال عدوان اور کمال ناصر کے خلاف آپریشن ہوا۔خود اسرائیلی انسانی حقوق کی تنظیم B’Tselem، جو کہ اسرائیلی فوج سے لے کر ڈیٹا استعمال کرتی ہے، بتاتی ہے کہ ستمبر 2000 سے اگست 2011 کے درمیان اسرائیلی ٹارگٹ کلنگ نے 425 فلسطینیوں کی جان لی۔ ان میں سے 40.9 فیصد عام شہری تھے۔ شیخ حسن نصراللہ نے 1982 میں جنوبی لبنان میں اسرائیلی قبضے کے خلاف تحریک مزاحمت منظم کی۔اسرائیل کو اس مزاحمت کی وجہ سے لبنان سے نکلنا پڑا۔وہ تبھی سے صہیونی ریاست کا ٹارگٹ تھے۔ حسن نصراللہ کی تنظیمی قیادت ان کی مقبولیت کی علامت تھی۔ انہوں نے اپنے پیغام کے ابلاغ کے لیے محنت کی۔ وہ سوچے سمجھے، شائستہ اور بعض اوقات پر مزاح گفتگو کرنے والے کے طور پر سامنیآئے۔ مزید برآں، ان کی قیادت میں، حزب اللہ نے سماجی بہبود کے پروگراموں کا ایک وسیع نیٹ ورک تیار کیا، جس نے گروپ کو نچلی سطح پر حمایت حاصل کرنے میں مدد دی۔حسن نصراللہ نے تنظیم کو ایک اسلامی ملیشیا کے طور پر بڑھایا اور قومی سیاست کے دائرے میں، عوامی عہدے کے بغیر اپنے آپ کو ایک سیاسی رہنما کے طور پر منوایا۔ انہوں نے عربوں کے وقار اور عزت کی اہمیت پر زور دیا اور لبنان کے دفاع میں کلیدی کردار ادا کیا۔ حسن نصراللہ کا قومی پروفائل اس وقت بلند ہوا جب انہوں نے امریکی ثالثی کے ذریعے اسرائیل کے ساتھ سرحد پار حملوں پر جنگ بندی پر بات چیت کی، حالانکہ اس سے لبنان کے اندر کسی لڑائی کو روکا نہیں گیا۔ بعد ازاں جنوبی لبنان پر قابض اسرائیلی افواج پر مسلسل حملوں کے نتیجے میں 2000 میں اسرائیل کو پیچھے ہٹنا پڑا۔ اس سے نصر اللہ کی عرب دنیا میں مقبولیت میں اضافہ ہوا لیکن وہ اس کوشش میں محفوظ نہیں رہے۔ 1997 میں ان کا 18 سالہ بیٹا ہادی اسرائیلی فوج سے لڑتے ہوئے مارا گیا تھا۔اسرائیل کے خلاف کامیابیوں کا اعزاز نصر اللہ کو دیا گیا۔2000 میں انہوں نے اسرائیل کے ساتھ قیدیوں کے تبادلے کا اہتمام کیا جسے بہت سے عربوں نے فتح سمجھا۔اضافی قیدیوں کی رہائی کے لیے اسرائیل پر دباو ڈالنے کی کوشش میں، حزب اللہ کے نیم فوجی دستوں نے 2006 میں جنوب سے ایک فوجی آپریشن شروع کیا، جس میں متعدد اسرائیلی فوجیوں کو ہلاک اور دو کو اغوا کر لیا گیا۔ اس کارروائی کے نتیجے میں اسرائیل نے حزب اللہ کے خلاف ایک بڑا فوجی حملہ شروع کیا۔ جنگ کے آغاز میں بعض عرب رہنماوں نے حسن نصراللہ اور حزب اللہ کو تنازعہ پر اکسانے پر تنقید کی لیکن 34 روزہ جنگ کے اختتام تک، جس کے نتیجے میں 1,000 لبنانی ہلاک ہوئے اور تقریبا 10 لاکھ بے گھر ہوئے، حسن نصر اللہ نے فتح کا اعلان کر دیا اور ایک بار پھر عرب دنیا کے بیشتر حصوں میں حزب اللہ کے ایک قابل احترام رہنما کے طور پر ابھرے۔ اسرائیلی افواج کا مقابلہ کرنا ایک ایسا کارنامہ تھا جو کسی اور عرب ملیشیا نے انجام نہیں دیا ۔ سن 2010 سے، اسرائیل کو ایران کے جوہری پروگرام پر کم از کم درجن بھر حملوں کا ذمہ دار ٹھہرایا گیا ، جن میں سائبر، خفیہ کارروائیاں اور سائنسدانوں کا قتل شامل ہیں۔ اسرائیل عالمی امن کے لئے بڑا خطرہ بن رہا ہے،اس کی ناقابل فہم حمایت و سرپرستی کر کے امریکہ، برطانیہ اور دوسرے اتحادی ممالک موجودہ عالمی نظام کو اعتباریت داغدار کر رہے ہیں، اس سوال کا جواب اقوام متحدہ اور عالمی طاقتوں کے پاس نہیں کہ آخر مسلمانوں اور مسلم ریاستوں کے تنازعات ختم کرنے میں عالمی نظام کیوں ناکام ہے۔ یروشلم اور تہران تقریبا ایک ہزار میل کے فاصلے پر ہیں۔ اس کے باوجود اسرائیل نے ایرانی سرزمین اور اس کی سب سے محفوظ تنصیبات تک رسائی حاصل کی۔ 2010 اور 2012 کے درمیان ایران کے ساتھ جوہری سفارت کاری کے آغاز سے پہلے اور 2018 میں موساد کے چھاپے، تخریب کاری اور قتل شامل ہے۔
٭٭٭

LEAVE A REPLY

Please enter your comment!
Please enter your name here