وطن کی سالمیت، قوم متحد!!!

0
186
جاوید رانا

پاکستانی سیاست کا منظر نامہ ویسے تو پی ٹی آئی کی حکومت کے آغاز سے ہی اپوزیشن کی ہر معاملے، ہر ایشو پر محض مخالفت برائے مخالفت سے ہی عبارت ہے لیکن گزشتہ دنوں بجٹ کے حوالے سے جو نفرت انگیز اور غلیظ روئیے سامنے آئے ہیں اُس پر ہم نے اپنے گزشتہ کالم میں نہ صرف مذمت کا اظہار کیا تھا بلکہ موجودہ حکومت کے اقدامات کی توثیق کرتے ہوئے وزیراعظم کو اپنے مشن و اہداف کی تکمیل کیلئے مصروفِ عمل رہنے اور مخالفین کے شور و غوغا، منفی طرز عمل پر کان نہ دھرنے کا مشورہ دیا تھا۔ بلوچستان اسمبلی میں جو کچھ ہوا، وہ کسی بھی طرح ایک جمہوری معاشرے کی تصویر کشی نہیں کرتا، اپوزیشن کا اسمبلی کے گھیرائو اور مرکزی دروازے پر تالے لگا دینا بدترین فعل تھا۔ نتیجہ یہ ہوا کہ پولیس اور قانون نافذ کرنے والے اداروں نے اپنا فرض ادا کیا اور بالآخر بلوچستان کا بجٹ پیش ہوا۔ قومی اسمبلی میں جو کچھ ہوا، اس کی تفصیل سے تو ہر پاکستانی واقف ہے، افسوس بلکہ ندامت کی بات یہ ہے کہ اس سارے جھگڑے میں بجٹ کی جس کتاب کو میزائلوں کی طرح ایک دوسرے پر مارا گیا اس کے پہلے صفحہ پر ”نحمدہ ونصلی علیٰ رسولہ الکریم” اور ”بسم اللہ الرحمن الرحیم” تحریر تھا۔ ہر دو جانب سے مارا ماری کرنے والے مسلمان تھے لیکن اس مقدس پہلو پر کسی نے بھی سوچنے کی زحمت گوارا نہ کی کہ وہ کس بے حرمتی کا مرتکب ہو رہا ہے اور اس کی شرعی و آئینی سزا کیا ہے؟ حیرت اس پر بھی ہے کہ اس پہلو پر کسی بھی پارلیمانی رکن یا رہنما بشمول اسپیکر نے کوئی اظہار افسوس یا مذمت تک نہیں کیا۔ بے حسی اور بے غیرتی شاید اسی کو کہا جا سکتاہے، یہی حرکت اگر کسی غیر مسلم رکن نے کی ہوتی تو آئین و قانون کی متعلق شقوں کے تحت اس پر فرد جرم بھی عائد ہوتی اور واجب القتل بھی قرار دیدیا جاتا۔ ”یہاں پر یہ نظر آرہا ہے کہ غیر مسلم کریں تو توہین رسالت یا توہین مذہب قرار دیا جاتا ہے اور پوری دنیا میں عالم اسلام کے ٹھیکیدار گلی محلے،سڑکوں، یہاں تک پارلیمنٹ اور اسمبلی میں بڑی بڑی تقریریں کرتے نظر آتے ہیں اسے کہتے ہیں مرضی کا اسلام اور مرضی کی رائے!!!”بے حسی اور بے غیرتی کے ساتھ دیدہ دلیری کی ایک مثال تو یہ بھی ہے کہ شیخ روحیل اصغر نے اپنے گالی دینے کے عمل کو ”پنجاب کا کلچر” قرار دیدیا۔ میں نے ایک پنجابی گھرانے میں آنکھ کھولی ہے۔ اپنے والدین اور بزرگوں سے تربیت پائی اور اساتذہ و سینئرز سے پنجاب کی زبان و معاشرت سے آگاہی حاصل کی کہ پنجابی تہذیب و زبان شائستگی، تہذیب، محبت و مٹھاس کا مرکب ہے، کسی کے منہ سے اگر گالی یا کوئی خلاف تہذیب بات نکل بھی گئی ہو تو اسے شرمندہ ہوتے معذرت کرتے ہوئے دیکھا ہے۔ ایسے میں روحیل اصغر کا استدلال کسی بھی صورت قبول نہیں کیا جا سکتا۔ بابا بلھے شاہ، حضرت سلطان باہو، وارث شاہ جیسے بزرگوں کی میٹھی پنجابی زبان میں کسی بھی گالی یا نازیبا یات کو پنجاب کا کلچر یا روایت قرار دینا نہ صرف پنجاب کی زبان و ثقافت کی تکفیر ہے بلکہ پنجاب اور پنجابیوں کی بھی توہین ہے۔ ایک ایسے سینئر سیاستدان اور پارلیمنٹیرین کی جانب سے جو خود بھی پنجاب سے تعلق رکھتا ہے اور پنجاب کے عوام کے ووٹوں کے ہی باعث اقتدار کی راہداریوں اور پارلیمان کے ایوانوں میں رہا ہے یہ دلیل ہر گز قابل قبول نہیں ہو سکتی۔ درحقیقت یہ حرکت بھی اسی سلسلے کا ایک جزو ہے جس میں نواز لیگ اور اپوزیشن اپنی ناکامیوں اور عمران خان کی کامیابیوں و عوامی مقبولیت کی وجہ سے اپنے ہوش و حواس کھو بیٹھے ہیں اور انہیں اپنا سیاسی مستقبل بھی مخدوش نظر آرہا ہے۔
اپنی جُگت باز عمران مخالف حرکات اور سیاسی مستقبل کی ناکامی کے خوف میں گھری اپوزیشن کے برعکس عمران خان داخلی و خارجی امور میں واضح کامیابیوں اور ڈوبی ہوئی معیشت کو صحیح ٹریک پر لانے میں کامیاب نظر آتا ہے جو یقیناً آئندہ انتخابات میں اس کی جیت اور قومی و بین الاقوامی سطح پر مقبولیت کی پیش بینی ہے۔ بیرونی ملک پاکستانیوں کو ووٹ کا حق اور پاکستانی سیاست میں کردار کی ادائیگی، انتخاب میں الیکٹرانک ووٹنگ مشین کے استعمال سے دھاندلی کے امکانات ختم کرنے، معیشت میں بہتری لانے، موجودہ بجٹ میں بدحال شہر کراچی کیلئے خصوصی بجٹ رکھنے کیساتھ خصوصاً افغان امن عمل اور امریکہ کے پاکستان میں فوجی اڈوں کی فراہمی کیلئے عمران خان کے مضبوط مؤقف Absolutely Not جیسے اقدامات نے اپوزیشن کو اپنے مستقبل کے حوالے سے تاریکی کے خوف میں مبتلا کر دیا ہے۔ فضل الرحمن اور مریم نواز کی خود غرضی اور ریاست مخالف کردار کے باعث مردہ پی ڈی ایم کے مُردے میں جان ڈالنے کی کوشش کی جا رہی ہے تو دوسری جانب شہباز شریف مصالحت اور مشترکہ حکمت عملی پر زور دے رہے ہیں۔ پیپلزپارٹی سندھ کے حقوق اور محرومی کا کارڈ کھیلنے کیساتھ پنجاب میں اپنا وجود بحال کرنے میں کوششیں کر رہی ہے، ساتھ ہی سندھ میں اپنا ووٹ بینک برقرار رکھنے اور بعض مقتدر ذرائع کی ہدایت کے مطابق اندرخانہ بعض حکومت اُمور پر اثباتی رویہ اپنا رہی ہے۔
وزیراعظم عمران خان تمام تر اندرونی و بیرونی منفی سرگرمیوں و حرکات کا ڈٹ کر مقابلہ کرنے کیساتھ ملک اور عوام کی بہبود کیلئے مصروف عمل ہیں۔ عوام کے تحفظ و فوری مدد کیلئے امریکہ کی طرز پر 9/11 ہیلپ لائن کا قیام موجودہ حکومت کا اہم ترین اقدام ہے۔ ذرائع کے مطابق یہ ہیلپ لائن ان تمام شعبوں کو کور کریگی جو ایمرجنسی سروسز میں شمار ہوتے ہیں۔ عوامی بہبود و خوشحالی کے دیگر پراجیکٹس پر ہم اپنے گزشتہ کالموں میں اظہار کرتے رہے ہیں لہٰذا ان کی تفصیل میں جانے کے برعکس ہم اُس مدعے پر کچھ کہنا چاہتے ہیں جو نہ صرف تازہ ترین ایشو ہے بلکہ پاکستان کی بقاء و سلامتی اور خطے و عالمی حوالے سے بھی نہایت اہم ہے۔ کپتان کا امریکی چینل کے نمائندے کو انٹرویو دیتے ہوئے مضبوط و پُرعزم جواب نہ صرف امریکی انتظامیہ بلکہ امریکی مفادات کے حامی ملکوں، میڈیا خصوصاً بھارتی، افغان حکومتی وپاکستانی مخالف حلقوں کو زہر اُگلنے کا موقع بن رہا ہے۔ وزیراعظم کا متذکرہ مؤقف صرف عمران کا انفرادی مؤقف یا محض فرد واحد یا وزیراعظم کا ہی نہیں ساری ریاست بلکہ ساری قوم کا مؤقف ہے، سیاسی مخالفین بھی اس مؤقف سے روگردانی نہیں کر سکتے کہ ملکی سالمیت و بقاء پر لاکھ اختلاف ہونے کے باوجود آنچ آنا کسی کو بھی قبول نہیں۔ بات یہ ہے کہ اس معاملہ پر جس قوت اور اس کے حواریوں سے ہمارا واسطہ ہے، اس سے خیر کی کوئی توقع نہیں کی جا سکتی اور وہ کسی بھی حد تک جا سکتے ہیں۔ وزیراعظم کے اس انٹرویو کے فوری بعد وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی سے افغان میڈیا کے نمائندے کے اسامہ بن لادن کے حوالے سے سوال اور اس کے بعد پاکستان کو طوائف کا اڈہ قرار دینے والے افغان سیکیورٹی ایڈوائزر کا زہریلا پروپیگنڈہ اور مغربی میڈیا سمیت بھارتی و افغان میڈیا کا طوفان بدتمیزی متعلقہ قوت کا بالواسطہ حملہ ہے۔ وقت کا تقاضہ ہے کہ اس ایشو کو پارلیمان میں (خواہ ان کیمرہ ہی سہی) لاکر دنیا پر واضح کر دیا جائے کہ اس ایشو پر ساری قوم بشمول ریاست متحد ہے اور کپتان کے مؤقف Absolute Not پر کھڑی ہے۔
امن عالم کیلئے اگلی صفوں میں شامل
جنگ کی بات میں صد باعث انکار ہیں ہم
پاکستان تا قیامت سلامت رہنے کیلئے بنا ہے اور ترنوالہ نہیں جسے دشمن کھا سکے!!!
٭٭٭

LEAVE A REPLY

Please enter your comment!
Please enter your name here