کبھی کتابیں ہر گھر کی زینت ہوا کرتی تھیں ،یہ زیادہ پرانی بات نہیں۔الف لیلیٰ ہزار داستان کا دور اور اسکے بعد کہانیوں نے جنم لینا شروع کیا جو افسانہ ڈرامہ اور فلم میں بدلتا رہا۔فنون لطیفہ کی سب سے مضبوط کلاس سینما ہی رہا اور ہے کتابوں نے ہمیں شعور دیا سوچ دی اور خیال کا جنم ہوا تو غزل(شاعری)نے بھی دھنک پیدا کردی کہ ہزاروں شعراء ایک دوسرے کے مدمقابل اور ایک دوسرے کو نیچا دکھانے کی دھن میں اچھا اور بے اثر کلام پیش کرتے رہے۔یہی حال ناول نویسی اور افسانوں کی دنیا میں رہا۔حلقہ بندی اور مخالف کی تعریف نہ کرنا انکا شعور بنا۔اچھی برُی کتابیں شائع ہوتی رہیں۔کچھ کو اچھے نقاد ملے اور وہ ادب اور شاعری میں زندہ رہ گئیں ہر چند کہ انٹرنیٹ کی ایجاد نے کتابوں اور رسائل کی اشاعت پر بے حد اثر ڈالا کہ لوگوں کی سوچ پڑھنا لکھنا سب کچھ اسمارٹ فون میں سکڑ گیا۔انگلیوں سے قلم چھن گیالیکن ہم یہ ہی کہیںگے کہ کتاب ایک کچی نہ مٹنے والی چیز ہے جو مزہ اور سرور کتاب کے اوراق اُلٹنے میں ہے وہ اسمارٹ فون میں نہیں۔ دوسری بات ہے کہ اخبارات کو بھی نقصان پہنچا ہے اور سکڑتے سکڑتے اب وہ الیکٹرانک میڈیا پر چلے گئے ہیں۔
نیویارک میں برسوں سے ادب وشاعری پر کام ہورہا ہے۔مشاعروں کا نفاذ اور ادبی تنظیموں کے تحت تنقیدی اجلاس کا جاری رکھنا ایک نہایت مبرآزما اور محنت کا کام ہے ،یہ ایک اجتماعی کوشش ہے اور اس کوشش میں جو ادارے کامیاب رہے ہیں ان میں نمایاں ارباب ذوق کا نام ہے جسے آگے بڑھانے میں کئی نام آتے ہیں جب ہم نے قدم رکھا تب اس حلقہ کے کرتا دھرتاصوفی مشتاق اور طاہر خان تھے لیکن بعد میں یہ حلقہ دو حلقوں میں تبدیل ہوگیا۔تفصیل میں جائے بغیر ہم یہ کہیں گے کہ موجودہ حلقہ ارباب ذوق جس کی جنرل سیکرٹری فرح کامران رہی ہیں سعد ملک جوائنٹ سیکرٹری کے علاوہ سعید نقوی، ناصر گوندل اور پروین سلطان مجلس عاملہ کے ممبر ہیں۔پچھلے کئی سالوں کی تنقیدی اور دوسری اہم نشستوں کو حلقہ ارباب ذوق نے کتابی شکل میں لاکر ادب اور شاعری میں گرانقد اضافہ کیا ہے اور پچھلے ہفتہ ہمیں ڈاک میں تین کتابیں موصول ہوئیں۔پہلی کتاب جو٥٨٤صفحات پر تھی سلسلہ کی چوتھی کتاب تھی اور اس میں تنقیدی اجلاس میں پڑھی گئی نگارشات کے علاوہ شاعری کا انتخاب بھی شامل تھا جنوری٢٠١٥سے دسمبر٢٠١٧تک کی روئیداد کو کتابی شکل دی گئی۔پانچواں حجم٢٠٧صفحات پر پھیلا ہوا تھا اور کتابی سلسلہ٢ ٢٠٢٠ء کی روئیداد تھی۔تینوں کتابوں کو خوبصورت جدید پیپر بیک ایڈیشن کی شکل دی گئی تھی اور مشہور آرٹسٹ پروین مشیر اور نامور ممتاز حسین نے ٹائیٹل کو رنگ دیئے تھے جو ایک ادبی تخلیق کے شایان شان ہے۔
ان کی صفحات کی تفصیل میں جائے بغیر ہم فرح کامران کو خراج تحسین پیش کرینگے کہ انہوں نے اس کٹھن کام کو جوڑ کر کتابوں میں شامل لکھاریوں اور شعراء کو خراج عقیدت پیش کیا ہے۔ارباب ذوق کا یہ کارنامہ ہے کہ ادب کو کتابی شکل میں لا رہے ہیں شروع سے ہی اور یہ انفرادیت اس حلقہ کو دوسرے حلقوں سے علیحدہ کرتی ہے۔ہمیں یہ بھی کہنا پڑتا ہے کہ تنقیدی نشستوں کے درمیان پرانے مشہور لکھاریوں اور شعراء جو ہم میں نہیں ہیں انکے لئے محفل کا انعقاد کرکے خراج تحسین پیش کئے ہیں خواجہ احمد عباس، جان ایلیاء انتظار حسین، صادقین، بلھے شاہ ،منو بھائی ،کامران ندیم، فہمیدہ ریاض ،اسلم فرخی، پطرس بخاری اور دوسری زبانوں کے پابلونرودا اور گبریل مارکیز شامل ہیں۔تینوں کتابوں میں اجلاس میں پڑھی جانے والی غزلوں افسانوں کو جو مشہور اور نئے تخلیق کاروں کی ہیں ایک دستاویز کی شکل میں ترتیب دیا ہے۔ہم بتاتے چلیں ان کتابوں کو ہم ادب اور شاعری کی دنیا میں خوشنما تخلیق کہیں گے جس کے لئے فرح کامران شکریہ کی مستحق ہیں کہ وہ ایک مدیرہ کی حیثیت سے کتابوں اور رسالوں کی دنیا میں تاریخ بنا چکی ہیں۔وہ ایک بہترین ناظم بھی ہیں اور یہ کھوج ہم نے علی گڑھ المنائی کے عبداللہ جو مشاعروں کے لئے شمالی امریکہ میں مشہور ہیں کے لئے سجائی ،محفل کی نظامت انہوں نے کی تھی، لگائی تھی وہ ایک مشہور شاعرہ کی حیثیت سے بھی قدم جما چکی ہیں۔جس سے لگتا ہے اردو شاعری میں خواتین کافی آگے آچکی ہیں۔ان ہی کتابوں سے ہمیں معلوم ہوا کہ وہ ایک اچھی افسانہ نگار بھی ہیں جن کا١٥صفحات پرمحیط جاندار افسانہ مٹھی میں جگنو ہے یہاں ہم سامعین کے صبر کی داد دینگے کہ افسانہ برخلاف شاعری کے پڑھنے کی چیز ہے۔سعد ملک کے٣افسانے انمول مشیئر نہیں کرتی اور اُبلے انڈے سب سے اچھا کون۔حیران کرنے والی تحریریں ہیں ،انکے تعلق سے کہا جاسکتا ہے کہ افسانوں کا مستقبل تانباک ہے۔ہم نے یہاں دو افراد کا ذکر کیا ہے جب کہ کتابوں میں شامل پرانے لکھنے والے جو اپنی ساکھ بنا چکے ہیں۔سعید نقوی، ممتاز حسین اور شہلا نقوی اب یہ عجیب سا لگتا ہے کہ یہ نامور اشخاص شاعری میں بھی اپنی سخن وری دکھا رہے ہیں۔
یہاں ذکر ان کتابوں کا ہے۔حلقہ ارباب ذوق نے اشاعت میں ڈھال کر ایک نئی ریت قائم کی ہے۔تینوں کتابیں ادب وشاعری میں ایک سرمایہ ہونگی ایسا ہمارا کہنا ہے لکھنے کو بہت کچھ ہے اور پڑھنے والوں سے کہنا ہے کہ کتابوں اور رسائل کو اپنی روزمرہ زندگی کی آسائش بنائی۔
ساتھ ہی ہم نیوجرسی سے نکلنے والے سہ ماہی میگزیں”جوہر” جس کے مدیر اعلیٰ عارف افضال عثمانی ہیں جو اس سے پہلے عرصہ تک ہفتہ روزہ ایشیاء ٹریبوں نکالتے رہے ہیں ایک مستند صحافی اور اچھے لکھاری ہیں اور شاید پہلے جنہوں نے کامیڈین فلم میکر اور اداکار عمر شریف کے فن اور شخصیت پر ایک خوبصورت کتاب ترتیب دی تھی اور اب ایک جاذب نظر میگزین جس کا تیسرا شمارہ ہمارے سامنے ہے۔تعریف کے قابل ہے الیکٹرانک میڈیا کے اس دور میں میگزین نکالنا مالی خودکشی کے مترادف ہے۔عارف افضال عثمانی ایک ملٹی لیئر صلاحیتوں کے مالک ہیں۔ادبی ،علمی،تعلیمی، فلمی، شخصیات جو کرونا وائرس اور قدرتی سانحات کا شکار ہوگئے کو ٹائیٹل کی زینت بنا کر جدت پیدا کی ہے اور جازب نظر بھی ہے خوبصورت گرافک کا نمونہ بھی ہے اوراس کے صفحات میں بیش بہا شاعری، افسانوی، تنقیدی اور طنز ومزاح سے بھرپور تخلیقات ہیںجو پڑھنے اور ادبی ذوق رکھنے والوں کے ایک قیمتی جوہر میںخوبصورت تحریریں اور شاعری اور انکی اتنی خوبصورت ترتیب عارف افضال عثمانی نے دی ہے ، وضاحت کرکے رسالے کی تکمیل کی اہمیت سے روشناس کرایا ہے اور شاباشی کے مستحق ہیں۔
٭٭٭