جب پاکستان میں تھے اور اخبار اور ریڈیو تفریح اور خبروں کا ذریعہ تھا تو دنیا صرف پاکستان تک محدود تھی۔ہوش سنبھالا تو مجید لاہوری اور شورش کا شمیری کا نام عام تھا۔نمکدان اور چٹان کے توسط سے کالم کی دنیا میں ایک پارسی کالمسٹ کا نام ابھرا اردشیر کائوسجی ڈان میں اتوار کے اتوار انکا کالم چھپتا تھا۔ہماری انگریزی محدود تھی اور سیاسی بصیرت کا فقدان تھا۔وقت آگے بڑھا، اخبارات میں اضافہ ہوا انجام جنگ امروز، حریت، نوائے وقت، امن، مشرق اور شام کے اخبارات میں آغاز، نیوز، حیدرآباد سندھ سے پاسباں لیکن خاطر خواہ کامیابی حاصل نہ کرسکا البتہ سندھی کے اخبار عبرت نے پورے سندھ پر قبضہ کرلیا اور یہ سندھی کا جنگ ٹہرا۔نئے نئے لکھاری آئے، کالمسٹ نئے پرانے یاد تازہ کرتے چلیں۔الطاف گوہر، جمیل الدین عالی،رئیس امروہوی، ابن انشائ، ابراہیم ، الطاف گوہر، زیب النسائ، حمیداللہ، الطاف حسین قریشی، غازی صلاح الدین ،ارشاد احمد حقانی، زاہدہ منا،نذیر ناجی، رئوف کلاسرا، حسن نثار، شمشاد احمد عبیداللہ بیگ، منو بھائی، اور ہمارے ساتھ ابتدائی وقت میں ہارون رشید، کے علاوہ عبدل حمید چھاپرہ یہ کچھ نام ہمیں یاد رہ گئے ہیں اور یاد کرا رہے ہیں یہ وہ لوگ تھے جو حالات کو سنجیدہ اور مزاحیہ انداز میں لکھتے اور تنقید کا نشانہ بناتے تھے۔معیشت، سیاست، سماجی، معاشرتی اور تفریح(فلم، ٹی وی)کو، معاشرہ باشعور تھا۔لیکن اب اس کا اُلٹ ہے۔اس کے بعد تیزی سے وقت بدلتا گیا اور حالات بگڑتے گئے پاکستان اور دوسرے پسماندہ ممالک کے کئی ممالک نے ترقی کی مثالیں قائم کردیں۔دوسری جنگ عظیم میں زمین پر آرہا جاپان اور جرمنی ہر سمت میں آگے بڑھا اور دنیا بھر میں نئی ایجادات کو پہنچا دیا۔چین نے چھلانگ ماری اور یہ تحریر لکھنے تک اس نے ہائی اسپیڈ ٹرین کی دوڑ میں جرمن، جاپان، فرانس اور انگلینڈ کو سینکڑوں میل پیچھے چھوڑ دیا دنیا کے کونے کونے ہر گھر میں کچن سے گیراج تک چائنا نے جگہ بنائی اور ہر انسان کی ضرورت بنا۔سوئی سے فون تک پہلے جاپان کے مقابلے میں جرمن اول پھر چین کے مقابلے میں جاپان پسندیدہ صرف چین اور چین اور سائوتھ کوریا نے سر اٹھایا مشینری پانی کے جہاز اور اب کاروں کو وہ ہر بڑے ملک میں دوڑا رہا ہے۔KIAاور HYNDViکے برانڈ کی خوبصورتی میں اس نے جرمن اور جاپان کو بھی پیچھے چھوڑا ہے اگر صارفین مرسیڈیز، بی ایم ڈبلیو، لیکس کے پیچھے نہ بھاگیں تو ہم کہہ سکتے ہیں ہنڈائی نے ہونڈا کو پیچھے چھوڑا ہے آرام دہ اور اندر سے کشادہ کار بنا کر۔امریکہ سیاست(بین الاقوامی)اور اندرونی میں پنجہ آزمائی کرتا رہا اور روس کے ٹوٹنے کے بعد سپرپاور کہلایا اور پسماندہ ملکوں کی ضرورت بنا ادھار دے دے کر جو اس کی زد سے نکل گیا وہ آج سر اٹھا کر ترقی کی جانب ہے۔ملیشیائ، ترکی جہاں کرپشن وقتی یا آٹے میں نمک کے برابر ہے لیکن پاکستان جہاں کرپشن آٹے کے برابر ہے نمک میں آنے والی کئی دہائیوں تک سر نہیں اٹھا سکتا۔نہ صرف یہ بلکہ معاشرتی اور معاشی اعتبار سے کنگال ہے۔جہاں سچ کا فقدان ہے ہمار پیارے رسول نے ایک شخص کو اچھا بننے کے لئے صرف اتنا مشورہ دیا تھا”تم سچ بولا کرو” اور یہ ہی کامیابی اور کامرانی کا راز ہے۔ایسا نہ ہونے سے ہم کنگال ہوچکے ہیں،جبکہ پوری دنیا میڈیا کے توسط سے گلوبل ولیج بن چکی ہے ہر انسان اپنی دلچسپی کی چیز تلاش کرلیتا ہے۔اخلاقی بے ضابطگی آسمان کو چھو رہی ہے۔سوشل میڈیا اور الیکٹرانک میڈیا کے ذریعے تازہ مثال”ہم” ٹی وی پر روزانہ شام کے اوقات(٧بجے شام)میں جاری سیریل ”بچُھو” ہے جیسے ہم دیکھ رہے ہیں اس انتظار میں کہ آخر لکھاری میمونہ عزیز اس سیریل میں کتنی گند ڈال سکتی ہیں۔کہانی کا کردار ایک لڑکی کے اردگرد فیملی میں گھومتا ہے جو اپنی سسرال میں ایک بچھو ہے جو کسی کو خوش دیکھنا نہیں چاہتی، اپنی سمیت وہ اپنی نند کو بھی لڑکے سے عشق کرنے پر اُکساتی ہے جو اسکی سسرال والوں کو پسند نہیں ،لڑکے کی چھوٹی بہن اپنے بھائی کے لئے دلالی کرتی ہے۔بچھو ماہ نور اپنی دیورانی پر جھوٹے الزام لگا کر اپنی ساس کو اسکا دشمن بناتی ہے۔اپنے شوہر کو بھائیوں سے لڑواتی ہے اس کا ایک دیور دن رات اپنی چھوٹی بھاوج سے جو اسکے گھر میں پلی بڑھی ہے بظاہر ایک پاکیزہ رشتہ کے تحت اس سے مشورہ لینے رات کو بھی اسکے بیڈروم میں جاتا ہے ،دونوں ایک دوسرے کو مورل سپورٹ دیتے وقت ایک دوسرے پر ہاتھ پھیرتے اور کلائی پکڑتے ہیں جس پر گھر میں دیکھنے والوں کو کوئی اعتراض نہیں پھر ایک اور خاتون جس کا شوہر اس گھرانے کا دشمن تھا وہ دوبارہ خاندان میں آکر اپنائیت کا ڈھونگ رچاتی ہے اور مہہ نور اپنے دیور کو اس خاتون کی لڑکی سے اپنے چھوٹے دیور اور اپنی چھوٹی بہن کے شوہر سے عشق کرواتی ہے اور پھر اپنی بہن کو ہوٹل میں لے جا کر رنگے ہاتھوں پکڑواتی ہے۔لیکن اسکی چھوٹی معصوم یا نہایت بیوقوف بہن پھر بھی اپنے نکاح یافتہ شوہر سے جذباتی محبت کرتی ہے۔ماہ نور اپنی اسی بہن کی رخصتی نہیں چاہتی ہے میرے خیال میں اس کی لکھاری بھی آج کے ماحول کی پیداوار ہے۔لیکن ماہ نور کا حد سے گرا منافق ذہن اس معاشرے میں ہوسکتا ہے۔اور”ہم”ٹی وی کی مومنہ درید اس کا پرچار کرکے ہر گھر میں کمسن لڑکیوں، دیور، دیورانی اور ساسوں کے علاوہ گنڈے تعاویز کا پرچار کرکے بقول اندرا گاندھی کے کہ ہم انکی معاشرے میں گھس کر تباہ کرینگے۔جنگ کی ضرورت نہیں عمران خان پہلے حکمران ہیں جنہوں نے اس گند کی طرف اشارہ کیا ہے کیا گھروں کا ماحول اس قسم کے سیریل بنا کر دکھانے سے سدھر رہا ہے۔یا اسکے منفی اثرات بڑھ رہے ہیں۔کرپشن کی طرح ان میں پھیلائو ہو رہا ہے سیدہ توبہ انور جس نے بچھو کا کردار ادا کیا ہے عامر لیاقت مرحوم کی بیوی رہی ہیں ،یہ ساری عورتیں ماڈلنگ کی پیداوار ہیں جن کا عام معاشرے سے کوئی تعلق نہیں۔دولت، شہرت اور شہوت انگیز ماڈل کی دنیا کی نمائندہ ہیں ان پر پابندی لگنا اسلامی جمہوریہ پاکستان میں ضروری ہے لیکن بلی کے گلے میں گھنٹی باندھے کون، ہمیں تو اس کے ذکر سے کوفت ہو رہی ہے۔صرف اتنا ہی کہہ سکتے ہیں ہر خاندان کے بڑوں سے کہ اپنی آنے والی نسلوں کو اس بچھو سے بچائیں جو کسی طور پر بھی معاشرے کی عکاسی نہیں کر رہا بلکہ اپناگندہ اثر چھوڑ رہا ہے حکومت کچھ نہیں کریگی کہ وہ خود بھی دلال ہے اور انکی ناکائوں سے بڑا کردار ادا کر رہے ہیں یہ سانپ ہیں۔
٭٭٭٭٭