قیامت کی گھڑی حکمرانوں کا کردار!!!

0
209
جاوید رانا

سمجھ میں نہیں آتا کہ کہاں سے شروع کروں اور کہاں ختم کروں، وطن عزیز اس وقت جس کرب و بربادی سے گزر رہا ہے عوام کی حالت زار اور بے کسی کے واقعات و حقائق روح و قلب کو کچوکے لگا رہے ہیں اور میں اپنے دیس اور لوگوں کا نوحہ لکھتے ہوئے حیراں ہوں ،دل کو روئوں کہ پیٹوں جگر کو میں۔ ان سطور کو لکھتے ہوئے پاکستان میں سیلابی آزمائش اور جان و مال کے ضیاع کے سلسلے کو 22 روز گزر چکے ہیں کراچی سے کشمیر اور گلگت تک کوئی جگہ ایسی نہیں جہاں تباہی و بربادی، انسانی جانوں کا ضیاع اور لوگوں کے ساتھ مال و اسباب، مویشیوں، فصلوں، شہروں، دیہاتوں کی تباہی و نقصانات نہ ہوئے ہوں۔ ہمارے ذرائع کے مطابق اب تک تقریباً 4 کروڑ افراد اس قدرتی آفت سے متاثر ہو چکے ہیں، اربوں روپے کی جائیدادیں اور فصلیں ختم ہو چکی ہیں، کوئی صوبہ ایسا نہیں جو اس آفت سے محفوظ رہا ہو۔ پاکستانی اور عالمی میڈیا مسلسل اس حوالے سے آگاہی دے رہا ہے۔ سیلاب اور بھوک و متعدی بیماریوں سے جان سے جانے والوں کی تعداد ہزاروں کی تعداد میں ہے۔ ماں باپ کے سامنے بچے سیلاب میں بہہ گئے ہیں، بچے اپنے والدین کی ہلاکتوں کے بعد بے آسرا و بے سہارا ہو چکے ہیں، قیامت کا سماں ہے ایسے ایسے مناظر سامنے آرہے ہیں جنہیں دیکھ کر دل خون کے آنسو روتا ہے، قمبر(سندھ) میں بھوک سے بلبلاتی ہوئی ننبی بچی کی خالی ہانڈی کو کھرچ کھرچ کر اپنی بھوک مٹانے کی کوش کرتی ہوئی ویڈیو کو دیکھ کر کون صاحب اولاد ہوگا جس کا کلیجہ چھلنی نہ ہوا ہو اور وہ رویا نہ ہو۔ بلوچستان کے درماندہ علاقے میں بے لباس اور مجبور و بے بس عورتوں کی حالت زار پر بے حس معاشرے کو زمین میں گڑ جانا چاہیے۔ اللہ رب العزت اپنا کرم فرمائے اور اس قدرتی آفت سے میرے وطن اور لوگوں کو نجات عطاء فرمائے۔ واضح رہے کہ یہ کائنات اللہ تعالیٰ کی ہے وہ رب العالمین ہے اس کا مالک و مختار ہے اور انسان کو زندگی گزارنے اور معاشرت کیلئے آئین و قانون حیات دیا ہے۔ تاریخ اس حقیقت کی شاہد ہے کہ جب بھی اللہ جل شانہ کے احکامات کی خلاف ورزی کی گئی تو عذاب نازل ہوا ہے اور اقوام و حکمران نشان عبرت بن گئے ہیں۔ علمائے دین کے مطابق جب اللہ تعالیٰ کسی اُمت یا حکمرانوں سے ناراض ہوتے ہیں تو اس کا اظہار بارشوں و دیگر قدرتی آفات کی صورت میں ہوتا ہے۔ ممکن ہے بعض لوگ حالیہ بارشوں کو عالمی ماحولیاتی تبدیلیوں کا نتیجہ قرار دیں، اس سے انکار نہیں لیکن کیا تبدیلی کے اثرات عالمی سطح پر نہیں ہو رہے ہیں؟ قومیں اور حکومتیں حالات کے تدارک کیلئے پیشگی اقدامات کرتی ہیں۔ سوال یہ بھی پیدا ہوتا ہے کہ کیا ہمارے ارباب اقتدار نے متعلقہ محکمہ اور ادارے کی واضح پیشگوئی اور ہدایت کے باوجود ایسے اقدامات کیوں نہیں کئے؟ اس حقیقت کا علم ہوتے ہوئے بھی کہ پاکستان ان ممالک میں شامل ہے جہاں ماحولیاتی تبدیلی زیادہ اثر انداز ہوگی۔
حقیقت یہ ہے کہ متعلقہ ادارے نے 22 جون کو اس قدرتی آفت (معمول سے زیادہ بارشوں) کی اطلاع دی، 28 جون کو وارننگ دہرائی گئی۔ اس حقیقت سے بھی کوئی انکار نہیں کہ ملک کی 60 فیصد آبادی ایسے علاقوں میں رہتی ہے جہاں قدرتی آفات سے تحفظ کی کوئی سہولت میسر نہیں۔ ہمارے ارباب سیاست انہی لوگوں کے وٹ لے کر ایوان اقتدار میں جاتے ہیں لیکن واضح وارننگز کے باوجود ان سیاسی اقتدار کے بھوکوں نے اپنے رائے دہندگان کیلئے کوئی فکر نہیں کی۔ اس کے برعکس وہ اپنی سیاست کے کھیل میں ہی رہے۔ پنجاب میں اقتدار کی تماشہ بازی، عدالتی و مفاداتی جھگڑے، مخالفین کو کُچلنے کیلئے متعدد اداروں کے توسط سے شہباز گِل جیسے لوگوں کی گرفتاریوں وتشدد، میڈیا ہائوسز پر پابندی، اینکرز پر جبر اور انہیں مخالف سیاسی قیادت کی حمایت پر ایف آئی آرز کا اندراج کر کے اس حد تک مجبور کرنا کہ وہ ملک چھوڑ جائیں جیسے اقدامات پر حکمرانوں نے اپنی ساری توانائیاں صرف کیں اور متوقع آمدہ حالات کے سد باب کیلئے ان کے کانوں پر جُوں تک رینگی۔
حکمرانوں کی بے حسی، ملک اور عوام کے معاملات سے لاپرواہی، غیر ملکی شاہانہ دوروں سے فرصت نہ پانے کی روش جاری رہی اور 26 جولائی سے قیامت صغریٰ شروع ہوئی الامان الحفیظ جو تباہی و بربادی ہوئی، جو عبرتناک مناظر سامنے آئے، جس طرح ان بارشوں نے سیلاب کی صورت اختیار کر کے سارے ملک کو اپنی لپیٹ میں لیا اور جولرزہ خیز و عبرتناک مناظر سامنے آئے وہ اس امر کی گواہی تھی نافرنیوں، خود غرضی اور ہوس کرنے والی قوموں اور حکمرانوں کیساتھ اللہ رب العزت کی ناراضگی کس طرح ظاہر کی جاتی ہے۔ ہمارے غلط اعمال خواہ کسی بھی حوالے سے ہوں ان کی پکڑ ضرور ہوتی ہے اور نتائج لازماً سامنے آتے ہیں، اس کی تازہ ترین مثال دریائے سوات پر تعمیر ہوٹلوں اور ریسٹ ہائوسز کا انہدام ہے، دریا پر غلط طریقوں اور مفاداتی دلچسپی میں بنائے گئے عالیشان ہوٹل حالیہ سیلاب میں جس طرح اوندھے منہ مسمار ہوئے وہ اس امر کی غمازی بھی ہے کہ دریا کی زمین پر قبضہ ہونے پر دریائے سوات کس طرح غیض و غضب میں تھا اور وقت آنے پر کس طرح قابضین خس و خاشاک ہو گئے۔
کچھ یہی حال موجودہ اقتدار کے قابضین کا بھی لگتا ہے جلد ہو یا بدیر، قیامت صغریٰ برپا ہونے کے بعد بھی ان حکمرانی کرنے والوں کے امدادی اعلانات و اقدامات پر عوام بھروسہ کرنے پر تیار نہیں ہیں۔ شکایات اور عدم اعتماد کی عوام کی جانب سے بھرمار ہے۔ یوں تو سیلاب نے جنوبی پنجاب اور کے پی میں بھی تباہی مچائی ہے لیکن سب سے زیادہ بربادی اور نقصانات بلوچستان و سندھ سے ہوئے۔ سندھ کے عوام سب سے زیادہ شکائیتیں کرتے رہے، منتخب ارکان اور وڈیروں نے امدادی و غذائی امداد اپنے ڈیروں اور گوداموں میں ذخیرہ کر لی اور ضرورت مند ترستے رہے۔ حکمرانوں نے نمائشی دورے کئے، تصویریں کھنچوائیں اور چلتے بنے، غضب تو یہ کہ بینظیر انکم سپورٹ کی ادائیگی متعلقہ ڈیوائس رکھنے والے بے خانماں و مجبور لوگوں سے 2 ہزار روپے فی کس خاندان کے حساب سے بھتہ وصول کیا، یہ بدعنوانی اور بے حسی و لالچ کی بدترین مثال نہیں تو اور کیا ہے! عوام کی بے اعتباری تو اس طرح بھی واضح ہوتی ہے کہ سیلاب کیلئے امدادی فنڈریزنگ کیلئے حکومت کی اپیل پر نہ پاکستان میں رہنے والے اور نہ اوورسیز پاکستانی اعتبار کرنے پر تیار ہیں جبکہ دوسری جانب عمران خان کی اپیل پر سوموار کو ہونیوالے ٹیلی تھون میں محض دو سے تین گھنٹوںمیں ملک اور بیرون پاکستانیوں نے 5 ارب روپے عطیہ کر دیئے۔ دوسری جانب حکومتی ارباب و عمال کے برعکس ہماری تینوں افواج امدادی و فلاحی اور عوام کے تحفظ کے فریضے کو حسب سابق نہایت عمدگی سے ادا کر رہی ہیں۔ مشکل کی اس گھڑی میں شریفوں، زرداری اور فضل الرحمن پر سے عوام کا اعتماد اُٹھ ہی چکا ہے۔ اللہ تعالیٰ اپنا کرم فرمائے اور قوم کو اس مصیبت کی گھڑی سے نکالنے کیساتھ خود غرض و بد فطرت عوام دشمن حکمرانوں سے نجات عطاء فرمائے۔ آمین۔
٭٭٭

LEAVE A REPLY

Please enter your comment!
Please enter your name here