محترم قارئین کرام آپ کی خدمت میں سید کاظم کا سلام پہنچے ،دل انتہائی مغموم ہے ایام عزا کے دوران جب کلمہ گو عزاداری اور نواسہ رسول صل اللہ علیہ وسلم کا غم منا رہے ہیں، وہیں مملکت پاک میں سیلاب سے تباہی اور دنیا کی بے حسی مشاہدہ ہورہی ہے ، سیلاب زدگان ہمارے بھائی ہیں، ملک میں اپنی مدد آپ کے تحت لوگوں کا جذبہ بھی ڈھکا چھپا نہیں ،ہر شخص امداد کررہا ہے جو بھی ہوسکے اور یہی طریقہ بھی ہے ۔جیسا کہ احباب کے علم میں ہے کہ ملک کے بیشتر علاقوں میں سیلاب آیا ہوا ہے اللہ تعالی سب کو اپنی پناہ میں رکھے اور آسانیاں عطا فرمائے،متاثرین سیلاب کی مدد کیلئے ہم لوگوں سے جو بھی ہو سکتا ہو کرینگے، اسے رضائے الہٰی کی خاطر کرنے سے گریز نہیں کرنا چاہئے ،گو کہ ہمارے ملک میں سیلاب حکومتی نااہلی اور بیرونی امداد کے لالچ میں ہی آتے ہیں لیکن کیا کریں کہ یہ نا پسندیدہ حکمران بھی بطور سزا ہی ہم پر مسلط کئے گئے ہیں ۔ جو بھی ہے ہمیں خود بھی ایک دوسرے کی مدد کی فکر کرنی چاہئے۔ویسے تو تجربہ ہے کہ اکثر فنڈز اکٹھے کرنے والے افراد قابل اعتبار نہیں ہیں لیکن ان مکاروں کے علاہ صحیح معنوں میں خدمت خلق کرنے والے لوگ بھی وافر تعداد میں موجود ہیں سو ہمیں اس گھڑی میں کسی پر غور کرکے وقت ضائع کرنے کے بجاے مدد کر ہی دینی چاہئیے ۔ اگر کچھ لوگ ان مستحقین کی امداد خود کھا جائیں گے تو خود ہی حساب دیں گے ہمارا فرض پورا ہو جاتا ہے مدد کرنے کے بعد۔ لہذا مدد کرنے میں حرج نہیں ہے۔سیلاب کے دنوں میں متفرق وبائی امراض بھی پھیل جاتے ہیں کیوںکہ جو پانی سیلاب میں آتا ہے وہ عموما کثافت لئے ہوتا یے ۔ بلکہ چند سال قبل تو انڈیا نے جو پانی چھوڑا تھا وہ ایسا غلیظ تھا کہ دریا سے کئی میل دور تک اس کی بد بو بے چین کردیتی تھی۔ مشکلات اتنی لامتناہی ہیں کہ بیان سے باہر کس کس مشکل اور ازیت کا تزکرہ کریں اس وقت !۔۔
صرف بادشاہ اور فقیر والے واقعے سے کچھ نہ کچھ حاصل کرنے کی کوشش کیجئیے گا جو اس سیلابی کیفیت میں یقینا آپ کی ذندگی بدل سکتا ہے اور بہت سی ذندگیوں کو آسانی میسر آسکتی ہے ۔رب کو راضی کرنے کا ، فقر، درویشی حاصل کرنے کا”ایک بار کوئی بادشاہ آوارہ گردی کرنے نکلا تو کسی ویران جگہ پہ ایک فقیر کو بیٹھے دیکھ کر گھوڑا روک لیا، پوچھا کہ بابا جی خیر تو ہے؟ ہنستی کھیلتی آبادی چھوڑ کر یہاں ویرانے میں ڈیرے کیوں لگائے بیٹھے ہیں؟ فقیر بابا جو کسی گیان، دھیان مراقبے میں اللہ اللہ کر رہے تھے، آنکھیں کھول کر کہنے لگے بادشاہ سلامت ہم نے دنیا تیارکی ہے کہ اپنے رب کو راضی کریں،اس وجہ سے دنیا چھوڑ کر اس ویرانے میں اللہ اللہ کر رہے ہیں، کہ جانے ہم بخشے بھی جائیں کہ نہ، رب راضی نہ ،ہوا تو دوزخ کا ایندھن بنیں گے۔بادشاہ کا دل چوٹ کھا گیا،بادشاہ نے سوال پوچھا، بابا فقیر سائیںآخر کیسے پتا چلے گا کہ رب راضی ہو گیا ہے؟ فقیر نے جواب دیا کہ بادشاہ سلامت یہ سامنے میں نے لکڑی کی کھونٹی گاڑ رکھی ہے اور اس گمان سے کہ اگر وہ واقعی راضی ہو گیا تو اس سوکھی کھونٹی سے ہری شاخیں نکل آئیں گی، تب مجھے بھی اطمینان ہو جائے گا کہ میرا رب مجھ سے راضی ہو گیا ہے۔
بادشاہ نے گھوڑا واپس موڑا، بادشاہت کے اختیارات معاملات ایک سمجھ دار مدبر وزیر کے حوالے کئے، کچھ ضروری سامان لیکر گھر والوں، سلطنت کو الوداع کہہ کر بن باس لے لیا، کہ میں نے تو لا علمی بے شمار گناہ کئیے ہوں گے، نہ ڈھنگ سے نماز روزہ کیا، نہ ڈھنگ سے ذکر خدا کیا،میرے تو گناہ اس فقیر سے کہیں زیادہ ہیں۔
اسی ویرانے میں اس فقیر کے پاس ہی لوہے کی کھونٹی گاڑ دی کہ میرے تو گناہ ہی بڑے ہیں، مجھ سے جب اللہ راضی ہوا تب گمان ہے کہ وہ قادر ذات اس لوہے کے کھونٹے سے ہری شاخیں نکال دے، بادشاہ بھی اسی فقیر کے ساتھ اپنی سوچ سمجھ علم کے مطابق اللہ اللہ کرنے لگا، وہی فقیرانہ بودباش، شام، ہوئی پھر رات،آدھی رات کے قریب بادشاہ کا گیان دھیان ڈسٹرب ہوا،کہیں دور سے رونے کی آواز آ رہی تھی،بادشاہ نے فقیر سائیں کو آواز دی کہ حضور کہیں سے رونے کی آواز آ رہی ہے چلیں پتا کریں کہ معاملہ کیا ہے، شاید ہم اس کی مدد کر سکیں۔
فقیر سائیں کاظم رضا جیسا ہی تھا شائد !!، ان کا مراقبہ و گیان اس کو بادشاہ کی بے وقت راگنی نے بھنگ کر دیا تھا،غصے سے بولے ،تیری پہلی رات ہے، ہم گزشتہ 10 سال سے ایسی کئی آوازیں سنتے ہیں، مگر ہم اللہ کی یاد سے غافل نہیں ہوتے،چپ بیٹھ اللہ اللہ کر، بس اسے راضی کر۔
بادشاہ چپ ہو گیا…
پھر رونے کی آواز سن کر بے قرار ہوا پھر فقیر سائیں سے عرض کی، آگے سے پھر ویسا جواب…
بادشاہ کے اندر کی بے کلی بڑھتی گئی ،تیسری بار پھر فقیر سائیں سے عرض کی کہ ایک سے دو بھلے، چل کے دیکھیں تو سہی،فقیر سائیں نے برہمی کا اظہار کیاکہ جا تجھے جو کیڑا تنگ کر رہا ہے، اسے خود ہی دور کرجا خود جا، ہمارے گیان میں مداخلت نہ کر،بادشاہ سے تو نہ رہا گیاجس طرف آواز آ رہی تھی چل پڑا۔
پہنچا تو دیکھا کہ دو بچے ہیں جو رو رہے ہیں ان کے ساتھ بوڑھا باپ،اونٹ جس کی ٹانگ ٹوٹی ہوئی،پوچھنے سے پتا چلا کہ فلاں فلاں طرف قحط پڑا، جس وجہ سے ہجرت کرنی پڑی، بچوں کی ماں اس قحط کی نذر ہوئی، قافلے کے ساتھ مل کر فلاں فلاں ملک یا شہر جا رہے تھے، اونٹ کو ٹھڈا لگا، ٹانگ ٹوٹ گئی،اب دوسرا کوئی وسیلہ نہیں تھا،قافلے کا ہر بندہ مجبور،وہ ہمیں یہیں چھوڑ کر آگے بڑھ گئے۔
بادشاہ نے اس قافلے کے پیچھے دوڑ لگا دی ،ہانپتے کانپتے قافلے کو جا لیا،روک کر سارا معاملہ عرض کیا، کہ بھئی تم لوگوں کا ساتھی تھا ،ہم وطن بھی تھا، اس کا بوجھ بانٹ لیتے ،کسی کے پاس فالتو اونٹ تھا تو اسے دے دیتے۔
قحط سے مارے لوگ وہ بھی مجبور تھے،ایک قافلے والے نے کہا کہ میرے پاس اونٹ تو ہے مگر اسے بیچ کر ہی وہاں میں نے رزق روزی کا بندوبست کرنا ہے،بادشاہ نے اپنے پلے سے اونٹ کی قیمت ادا کی، دو قافلے والوں کو ساتھ لیا، واپس اسی گھرانے کے پاس آکے اونٹ ان کے حوالے کیا کہ آپ کا ہے،اس معذور اونٹ کو بھی ساتھ لے جائیں، کہیں اس کی دوا ہو سکے، نہیں تو گوشت ہی بیچ لینااور یہ ساتھ میں چند اشرفیاں زاد راہ کے طور پہ رکھ لو،ساتھیوں نے سامان لادا،جیسے تیسے اونٹ کو بھی ساتھ لیا، قافلے میں ساتھ ملایا،شرمندہ تھے کہ بھوک افلاس نے ان سے قدریں چھین لی ہیں۔بادشاہ نے ہنسی خوشی انہیں روانہ کیااور واپس فقیر کی طرف راہ لی کہ میں تو اللہ کو راضی کرنے آیا تھا ایہہ کیہڑے چکراں وچ پے گیا آں،اب یہ جو وقت اس کی یاد کی غفلت میں گزرا ہے اس کا مداوا کیسے ہو….
بادشاہ وہاں پہنچا تو کیا دیکھتا کہ اس لوہے کی کھونٹی سے تازہ ہری شاخیں نکلی ہوئی ہیں…
بادشاہ سربسجود ہوا،فقیر سائیں کا گیان پھر تحدیث نعمت سے بھٹک گیا !۔۔۔
کہ فقیر سائیں! دیکھ ہمارا رب تو ہم سے راضی ہو گیا ہے، ہم چلے واپس، آپ یہاں ساری زندگی گیان دھیان مراقبے کرتے گزر جائے لیکن دکھی اور ضرورت مند انسان کی مدد کرکے دیکھیں آپ کی یہاں اور وہاں کی دنیا سنور جائیگی ان شا اللہ
دیکھئے قطعی ایسا نہیں کہ اللہ کریم کے طے کردہ فرائض واجبات سے غفلت کا تصور بھی کیا جائے، مگر حقوق العباد پہلے ہے،کسی کے چہرے پہ مسکراہٹ لا دینا ، کسی کا دُکھ درد تکلیف دور کر دینا، انسانیت سے محبت انسان کی معراج ہے،انسانیت کی معراج ورد وظائف کی رینج سے کہیں دور ہے، انسانیت کا سوز رکھنے والا یہ نہیں دیکھتا کہ سامنے والا ”پروفیشنل ”یا ضرورت مند ہے!۔
ملتے ہیں اگلے ہفتے اجازت دیجئے
٭٭٭