محترم قارئین آپ کی خدمت میں سید کاظم رضا نقوی کا سلام پہنچے اس ہفتے کے کالم میں ایک مسئلہ توجہ طلب ہے اس پر لکھنا چاھ رہا ہوں کیونکہ آجکل عامل ، کامل ، بابے اور منجم ہاتھ دھو کر ایک تاریخ کے پیچھے پڑے ہوئے ہیں وہ ہے دیوالی کی تاریخ اور اس موقع کی مناسبت سے مندرے ، منتر ، ٹونے اور ٹوٹکے کی بھرمار آن لائن اور اشتہارات میں نظر آرہی ہے ۔۔جیسا کہ پہلے بھی عرض کیا تھا ان کالمز کے زریعے ہی کہ یہ روحانی علوم یونانیوں کی ایجاد تھے۔ جنہوں نے انبیائے کرام علیہم السلام کے عطائی علم جو وحی الہی پر مبنی تھا اس میں جب نسبت کے بغیر کامیابی حاصل نہ پا سکے تو پھر ظن کا سہارہ لیا اور متفرق علوم کو ترتیب دیا جن کو مختصر کیا جائے تو دو مقاصد میں تقسیم کیا جا سکتا ہے۔ ایک خبر سے متعلق دوسرا اثر سے متعلق اسی بنا پر تمام علوم فلسفہ ہر دو طریق پر بحث کرتے ہیں ۔ جیسا کہ جفر اخبار اور جفر آثار۔ پہلے کس مقصد غیبی علم یا خبر مخفی کا جاننا ہے دوسرے کا کسی شئے پر اثر ڈال کر کوئی مقصد حاصل کرنا ہے ۔اول اول بنی اسرائیل نے اپنے نظریات کے تحت ان کو ترتیب دیا۔ اس کے بعد کر قوم نے ان علوم فلسفہ و عملیات پر توجہ دی اور اپنے اپنے نظریات پر انہیں مرتب کیا اور مذہبی طور پر بھی تبدیلیاں کی گئیں۔جب یہ علوم ایرون پہنچے تو پارسیوں زرتشتوں اور اہل یرون نے اپنے نظریات کے تحت اہل روم نے اپنے نظریات یہود نے اپنے نظریات اور اہل مصر و اہل ہند میں پہنچے تو انہوں نے اپنے اپنے نظریات کے تحت مذہبی نسبت ان علوم عقلیہ سے جوڑ دی۔ آخر میں مسلمانوں نے بھی یہی کیا۔اسی لئے ہمارے ہاں ہر شئے میں مختلف اقوام کے عام رسوم و رواج اور نظریات سبھی جگہ شامل نظر آتے ہیں اہل علم و عمل صحیح العقیدہ صاحبان محراب و منبر و مسند نے بہت حد تک ان کی درستگی ہی کی اتنی کہ عقائد سے تو بالکل صاف کردیا لیکن اچھی معمولات میں بہت سی رسمیہ چیزیں شامل ہیں،دیوالی دسہرہ نوروز سب اسی قبیل کی چیزیں ہیں۔ہر مذہب کے عاملین نے اپنے ایام خاص کی مناسبت سے اعمال کے طریق کار ایجاد و اختراع کیے۔ ہندوں نے بھی۔ لیکن یہ سب نسبت کے بغیر ہیں اس لئے کہ ان کی اصل کوئی نہیں ہے یا اگر کسی کی ہے بھی تو محض عام شخص سے یا چھوٹی و غیر معتبر نسبت ہے ۔نسبت محترم شئے سے ہو جائے تو اسے بھی محترم کردیتی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ دیوالی دسہرہ اماوس پورنماشی نوروز وغیرہ حقیقی طور ہر کوئی منفعت نہیں رکھتے ایسے ہی کواکب کے اوقات بھی ۔ان سب کے برعکس ایام اسلامیہ خاص و معتبر و محترم نسبت رکھتے ہیں یہ سب کے سب اللہ رسول کے فرامین کی روشنی میں ہیں اس لئے ان کی تاثیر حتمی و یقینی ہے۔جیسے شب قدر شب برات جمعہ وغیرہ،جمعہ بھی باقی دنوں کی طرح ایک دن ہے اور اسی طرح شب قدر بھی لیکن اللہ رسول کے فرمان سے یہ دن محترم ہوگئے شب قدر نسبت نزول قرآن سے معتبر ہوئی ۔ ایسے ہی اس ماہ مکرم ربیع الاول شریف میں ایک رات یے جو صاحب قرآن حضور نبی اکرم صلی اللہ تعالی علیہ وآلہ واصحابہ وبارک وسلم کی ولادت مبارکہ سے نسبت رکھتی ہے اس لئے یہ شب قدر سے بھی افضل ہے۔
طعنے دینے والے ہمیں یہ طعنے دے رہے ہیں کہ ایسے ایام خاص میں ہم نے لوگوں کو عملیات کی طرف لگا دیا ۔ اور اس طرح ہم نے یہ گناہ کبیرہ کردیا! لیکن عجیب لوگ ہیں اس کی اصل و نسبت کو نہیں سمجھ رہے کہ عملیات سب دعا ہیں اور ایسے ایام خاص میں ہم نے رجوع الی اللہ کا راستہ ہی بتایا ہے غیر اللہ کی طرف والا تو نہیں بتایا۔ لیکن یہ بات اتنی آسان ہوتی تو لوگوں کو خصوصا عاملین کو پہلے ہی سمجھ آجاتی ۔ ورنہ عمل کرنے کی کیا ضرورت ساری رات سکون سے سوئیں یا فلمیں ڈرامے دیکھیں ہمیں کیا فرق پڑتا ہے ۔
منکر اعمال ( دعا)مجھے اس سوا ل کا جواب دیں کہ دعا میں دنیاوی مقصد کیلئے دعا کرنا جائز ہے یا ناجائز ؟
اگر ناجائز ہے تو پھر ربنا اتنا فی الدنیا میں پہلے دنیا کی خیر کیوں طلب کی جارہی ہے؟ لیکن کچھ لوگوں کی عقل ہی الٹی ہوتی ہے پھر سمجھ آئے تو کیسے آئے ؟اور آخر میں گفتگو کا لب لباب مختصر یہ ہے کہ دیوالی ہولی وغیرہ کے ایام میں کوئی خصوصیت نہیں ۔ صرف ہندوں نے اپنے مذہبی نظریات کی بنا پر وہ منتخب کئے ۔ مسلمان عاملین نے بھی ہندو پنڈتوں کی دیکھا دیکھی وہ شروع کردئیے۔
ایک وضاحت ضروری ہے کہ عامل کوء تعویز دھاگے اور جھاڑ پھونک کرنے والے کا نام یا کردار نہیں ہے بلکہ جو عمل کرکے مخصوص طریقہ دعا اختیار کرے اور اللہ سے اپنے لئیے آسانی و اسباب کی دعا کرے وہ عامل ہے کسی جنات و مخلوق کو قابو کرنے والے یا فراڈی بابوں کو عامل نہ سمجھا جائے ہر عمل کار خیر یا بد کی سعی عمل ہے اور کرنے والا عامل ۔
لوگوں نے عامل کو غلط منسوب کردیا اور اس کو محدود کردیا جبکہ ایسا حقیقتا نہیں ہے کس طرح کا خاکہ لوگوں کے ازہان بناچکے ہیں !اللہ ہم سب کی ھدایت فرمائے اور جو پریشان حال لوگ راہ سیر وسلوک میں نیکی کے اعمال اور دعائیں کرتے ہیں ان کی جائز حاجات پوری ہوں ۔ وقت کوء سا بھی ہو دعا کی جاسکتی ہے صرف اللہ کی زات سے جو ہر دعا کو پوری کرنے پر قادر ہے اور اس کے سوا کوء ہمارا حاجت روا نہیں ہے ۔
٭٭٭