گزشتہ دنوں معروف دانشور انور مقصود نے آرٹس کونسل کراچی کی 15 ویں عالمی اردو کانفرنس میں اپنے خصوصی انداز میں وطن عزیز کی صورتحال کو ایک ایسی فلم قرار دیا ہے جو گزشتہ 75 برس سے مسلسل چل رہی ہے، اس کا ہدایت کار پنجاب ہے، پروڈکشن خاکی ہے، شوٹنگ بلوچستان میں ہوئی ہے، پس پردہ موسیقی آرمی بینڈ، فلم کا انٹرویل 1971ء میں ہوا جب مشرقی پاکستان بنگلہ دیش بنا دیا گیا۔ انٹرویل کے بعد نغمہ آتا ہے اے وطن کے سجیلے جوانوں، فلم کا ہیرو ایک سندھی نوجوان ہوتا ہے، ایک بڑھئی سے ایسا تختہ بنانے کی فرمائش کرتا ہے جو اُلٹا نہ جائے، تختہ تو بن جاتا ہے لیکن 5 سال کے بعد اُلٹا بھی دیا جاتا ہے بلکہ سندھی ہیرو کو تختے پر لٹکا بھی دیا جاتا ہے۔ انور مقصود کی سنائی ہوئی یہ داستان فلم کہنے کو تو ایک تمثیل کا خاکہ ہے اور یقیناً شرکاء کی داد و دہش کا ثمر بنتا ہے لیکن کیا یہ ایک حقیقت کے طور پر پاکستان کے 22 کروڑ عوام کے جذبات کا مظہر نہیں ہے، دیکھا جائے تو تسلسل کیساتھ ایک ہی منظر نامہ کرداروں میں تبدیلی کیساتھ تاحال جاری ہے۔ ہدایت کار بھی وہی، پیشکار بھی وہی، پس پردہ موسیقی بھی وہی اور بہت سے اسٹاک ایکٹرز بھی وہی، فرق صرف یہ ہے کہ سچویشن کے بموجب مرکزی کردار یا ایکٹر تبدیل ہو جاتے ہیں، ہیرو ولن اور ولن ہیرو بن جاتے ہیں۔ بہر حال فلم کا تسلسل تاحال جاری ہے۔ متذکرہ بالا تمثیل کی روشنی میں اگر موجودہ صورتحال کا جائزہ لیں تو کہانی میں متعدد موڑ تو ضرور آئے ہیں لیکن منظر نامے میں کوئی تبدیلی نظر نہیں آرہی ہے اور شائقین (عوام) کی خواہش کے باوجود ہدایتکاری، پروڈکشن اور شوٹنگ یکسانیت سے جاری ہے۔ گزشتہ تیس برسوں سے جمہوریت نام کی ہیروئن کے پردے میں فلمساز و ہدایت کار کی مرضی اولین ترجیح ہے۔ اس مرضی کے تحت ہیرو کو ولن بنا دیا جاتا ہے اور ولن کے کردار میں تبدیلی کر کے اسے ہیرو بنا دیا جاتا ہے، شائقین کتنا بھی شور کریں، احتجاج کریں کسی کے کان پر جُوں بھی نہیں رینگتی ہے۔ یوں تو ہم وطن عزیز کے سیاسی منظر نامے پر مسلسل اپنے احساسات و مضمرات کا اظہار کرتے رہے ہیں لیکن فی الوقت جو صورتحال درپیش ہے ،وہ کسی بھی طرح ملک اور عوام کے حق میں نظر نہیں آتی، سقوط مشرقی پاکستان کے بعد ایسی صورتحال پیدا ہو چکی تھی کہ اس وقت کے صدر جنرل یحییٰ خان اور ان کی عسکری ٹیم سے سنبھالی نہیں جا رہی تھی، ایک بازو چلے جانے اور کسی واضح سمت کے غیر یقینی ہونے کے سبب عوام میں غصہ اور غیض و غضب بے انتہاء تھا، صدر یحییٰ نے حالات پر قابو پانے کیلئے اپنی ٹیم سے مشاورت کی تو جنرل عثمان مٹھا نے مشورہ دیا کہ اس وقت جو عوام کا مقبول ترین لیڈر ہے، اسے زمام اقتدار سونپ دی جائے، یحییٰ خان نے مشورے پر عمل کرتے ہوئے بقایا پاکستان کے اس وقت کے مقبول لیڈر ذوالفقار علی بھٹو کو صدارت سونپ دی، تمام تر غصہ اور مایوسی کے باوجود عوام نے ذوالفقار علی بھٹو کی صدارت سویلین مارشل لاء ایڈمنسٹریٹر کے تقرر کو قبول کیا اور ملک انتشار و عدم استحکام سے نکلتا نظر آیا۔
ہمیں اس حوالے کی ضرورت اس لئے پڑی کہ آج بھی حالات کم و بیش اسی طرح کے ہیں، عمران خان کیخلاف تحریک عدم لانے اور وزارت عظمیٰ سے ہٹائے جانے کے بعد گزشتہ آٹھ ماہ میں سیاسی عدم استحکام، معاشی ابتری کیساتھ ملک کے ریاستی، انتظامی خصوصاً اسٹیبلشمنٹ کیخلاف جو نفرت انگیزی کی لہر آئی ہے وہ کسی بھی طرح ملکی مفاد میں نہیں، عوام،میڈیا، سوشل میڈیا میں جس طرح سابق آرمی چیف کو نشانہ بنانے کیساتھ بین السطور میں جو پروپیگنڈہ کیا جا رہاہے اور عوام میں معاشی و فکری غم و غصہ پایا جاتا ہے، اس کا حل نکالنے کیلئے تدبر سے اقدامات کئے جائیں۔ اس بات میں کوئی شک نہیں کہ عمران خان اس وقت ملک کا واحد لیڈر ہے اور عوام کی بھرپور مقبولیت کا حامل اور موجودہ حکومتی ٹولے کیخلاف عوام کی امیدوں کا مرکز ہے۔ موجودہ اضطرابی حالات اور معاشی و کشیدہ حالات میں جہاں نہ صرف سیاسی حالات خراب تر ہیں، بے یقینی کی کیفیت ہے بلکہ ٹی ٹی پی کی دہشتگردی، زرمبادلہ کی کمی، آئی ایم ایف کی جانب سے لاتعلقی کی کیفیت ہے، ایک ہی حل نظر آتا ہے کہ انتخابات کے ذریعے عوامی مینڈیٹ کے مطابق مقبول ترین جماعت اور رہنما کو زمام اقتدار سونپ کر تمام تر ریاستی و حکومتی ادارے مشترکہ طور سے ملک اور عوام کی بہتری کیلئے عمل پیرا ہوں، موجودہ حالات جس رُخ پر جا رہے ہیں وہ کسی متعینہ و بامقصد حل کی جگہ مزید انتشار اور بگاڑ کا پیش خیمہ ہی نظر آرہے ہیں۔
کپتان کے پنجاب اور پختونخواہ کی اسمبلیوں کی تحلیل کے اعلان پر حکومت اور پی ٹی آئی کے عدم اعتماد، اعتماد کا ووٹ لینے، گورنر راج کے نفاذ کے دعوئوں کیساتھ مونس الٰہی اور چوہدر پرویز الٰہی کے بیانوں نے نہ صرف حالات کو مزید اُلجھا دیا ہے بلکہ کپتان اور دیگر رہنمائوں کے بیانات نے سابق آرمی چیف و ادارے کے حوالے سے بھی بہت سی غلط فہمیاں پیدا کر دی ہیں۔ ان تمام تر حالات میں کسی مثبت امید کے برعکس مزید خرابی ہی نظر آرہی ہے۔ کپتان کی جانب سے انتخاب کرائو، پاکستان بچائو تحریک کا اعلان اور حکومتی ٹولے کی عمران کو نا اہل قرار دلوانے کی دھمکیاں مزید کشیدگی اور انتشار کی نشاندہی ہے۔ وقت کا تقاضہ ہے کہ نہ صرف سیاسی اشرافیہ بلکہ ملک و عوام کے محافظین اپنا متعینہ کردار ادا کریں اور تمام سیاسی قوتوں کو خود غرضی و مفادات کے خول سے نکال کر سیاسی استحکام اور قومی وحدت کے دائرے میں لائیں۔ عوام کی منشاء و مرضی پر مبنی سیاسی قیادت ہی ملکی مسائل کا حل ہے اور یہی ترقی کا راستہ بھی ہے۔
٭٭٭