ایک رپورٹ کے مطابق پاکستان میں سرمایہ کاری کو لاحق خطرات کی شرح پچھلے دوسال میں دوبارہ بلند ہونے لگی ہے۔2015وزیر اعظم شہباز شریف نے چینی ہم منصب لی کی چانگ سے ٹیلی فون پر رابطہ کیا اور انہیں چینی سرمایہ کاروں کو مکمل تحفظ فراہم کرنے کا یقین دلایا ہے ۔دونوں رہنمائوں کے مابین دو طرفہ تعلقات ، باہمی دلچسپی کے امور اور سی پیک منصوبوں پر ہونے والی پیش رفت بھی گفتگو کا موضوع رہی ۔وزیر اعظم کا چینی قیادت کو فون بیجا نہیں ، سکیورٹی صورتحال میں وقوع پذیر تبدیلیاں اس امر کا تقاضا کر رہی ہیں کہ پاکستان ان تمام رکاوٹوں کو ختم کرنے پر توجہ دے جو غیر ملکی سرمایہ کاری کے راستے میں آن کھڑی ہوئی ہیں۔ میں نیشنل ایکشن پلان پر عمل درآمد شروع ہوا ۔ ملک بھر میں تشدد پسند تنظیموں اور افراد کے گرد گھیرا تنگ کیا گیا۔ جن لوگوں نے ریاست کی سلامتی کو خطرے میں ڈالا ، سرمایہ کاری کا ماحول خراب کیا، ان دوست ممالک کے شہریوں کی زندگی کے لئے خطرات پیدا کئے ،جو پاکستان میں تعمیراتی منصوبوں پر کام کر رہے تھے ،ان کا تعاقب کیا گیا ۔یہی سبب ہے کہ دہشت گردی کے خلاف جنگ شدید ہونے کے باوجود سال بہ سال سرمایہ کاری کو لاحق خطرات کم ہوتے گئے ۔ پاکستان میں جاری سیاسی اور معاشی غیر یقینی صورتحال کی وجہ سے سرمایہ کاری بری طرح متاثر ہوئی ہے، غیر ملکی سرمایہ کار تذبذب کا شکار ہیں ، معیشت کے مختلف شعبوں میں سرمایہ کاری کا بہاو سست ہو رہا ہے۔سیاسی عدم استحکام سرمایہ کاری رکنے کا پہلا سبب ہے ،پی ڈی ایم حکومت آنے کے بعد پاکستان میں براہ راست غیر ملکی سرمایہ کاری (FDI) مئی 2022 میں 29 فیصد کم ہو کر 141.2 ملین ڈالر رہ گئی جو اس سے گزشتہ سال کے اسی مہینے میں 199.2 ملین ڈالر تھی۔2022 سیاسی عدم استحکام کے ساتھ دہشت گردانہ کارروائیوں میں اضافے کا سال رہا ۔دونوں کی وجہ سے نا صرف معاشی حالت دگرگوں ہوئی بلکہ وہ دوست ملک جو پاکستان میں عدم استحکام اور سکیورٹی کی نا گفتہ بہ حالت سے پریشان تھے اپنا دست تعاون کھینچنے لگے ۔سعودی عرب نے گوادر میں سرمایہ کاری کے لئے شرط رکھی کہ سرکاری محکموں سے جان چھڑائی جائے ،چین کا تقاضا بڑھنے لگا کہ اس کے ہنر مندوں پر ہونے والے حملے روکے جائیں، سی پیک ، داسو ڈیم ، گوادر میں چینی باشندوں کی رہائش والے ہوٹل اور کراچی یونیورسٹی میں چینی اساتذہ پر حملے چین کے تحفظات کا سبب ہیں۔چینی قیادت نے ستمبر ، نومبر اور دسمبر 2022 میں پاکستان کو سکیورٹی سے متعلق خدشات سے مسلسل آگاہ کیا ۔ پاکستان نے ایسا ماحول تخلیق کرنے میں سستی کا مظاہرہ کیا جو سرمایہ کار کے لئے کشش کا باعث ہوتا ۔کارپوریٹ سیکٹر میں ٹیکس دہندگان کی تعداد بڑھانے کے بجائے حکومت نے ان شعبوں پر عائد ٹیکسوں میں اضافہ جاری رکھا جن پر پہلے سے ٹیکس عائد ہے۔پی ڈی ایم حکومت نے اس بجٹ (FY23) میں پہلے سے ٹیکس والے شعبوں پر مزید ٹیکس لگانے کی اپنی پرانی روایت کو بھی برقرار رکھا ہے۔ اس طرح کے طرز عمل سے سرمایہ کاروں کا اعتماد متزلزل ہوا۔ چین گزشتہ تین برسوں کے دوران پاکستان میں سرمایہ کاری کرنے والا سب سے بڑا ملک رہا ہے۔چین نے اقتصادی راہداری (CPEC) کے تحت بنیادی ڈھانچے کے منصوبوں میں بڑی سرمایہ کاری کر رکھی ہے ۔تاہم، امن و امان کی موجودہ صورتحال کی وجہ سے، اس نے سرمایہ کاری کے نئے فیصلے ملتوی کر دیے ہیں۔ اس کے علاوہ چینی سرمایہ کاروں کے بقایا جات نے بھی ان کی حوصلہ شکنی کی ہے۔ پاکستانیوں کی اکثریت چین سے تعلقات کو دوستانہ سمجھتی ہے۔ نائن الیون کے بعد پاکستان کے کچھ حصوں میں سیکیورٹی کی صورت حال ریاست پاکستان کے لیے ایک بڑا چیلنج بنی ہوئی ہے ۔دہشت گردانہ حملوں کی تعداد میں کمی کے باوجود تقریبا مستقل بنیادوں پر پولیس اور فوجی جوان جان قربان کررہے ہیں ۔ پاکستان کو اپنی داخلی سلامتی کو بہتر بنانے کے لیے دہشت گردی کے اس عفریت سے متعدد سطحوں پر نمٹنا ہوگا۔ تزویراتی طور پر، ملک کو اپنے پڑوسیوں کے ساتھ بامعنی روابط رکھنے کی ضرورت ہے۔ یہاں چین علاقائی تعاون اور امن کی حوصلہ افزائی کر کے کردار ادا کر سکتا ہے۔ درحقیقت سہ فریقی افغان امن عمل درست سمت میں ایک قدم ہے۔ حالیہ دنوں دہشت گردی کی ورداتوں میں اضافے کی ایک وجہ افغان سر زمین کا پاکستان کی سلامتی کے خلاف استعمال ہونا ہے ۔ چین-ایران-پاکستان سہ فریقی تعلقات میں جنوبی ایشیائی خطے میں امن مخالف عناصر کے خلاف اجتماعی ردعمل وضع کرنے کی صلاحیت موجود ہے۔ اہم بات یہ ہے کہ چین بھارت کو اس طریقے سے بھی راضی کر سکتا ہے جس سے تزویراتی غیر یقینی پن میں کمی آئے۔معیشت اور سکیورٹی کے شعبوں پر یکساں دبائو ہے ۔اس دبائو کے ساتھ چین جیسے دوست ممالک کے تحفظات اصل تصویر واضح کر دیتے ہیں۔پہلے مرحلے میں سیاسی غیر یقینی پن کا خاتمہ ہی سرمایہ کاروں کے لئے استحکام کی ضمانت ہو گا۔ سیاسی طور پر پاکستانی حکومت کو مقامی طور پر سرگرم انتہا پسند اور باغی گروپوں کے ساتھ مذاکرات کرنے کی کوشش کرنی چاہئے۔ نظریاتی طور پر معاشرے میں نفرت پھیلانے والوں کا مقابلہ کرنے کے لیے ایک تکثیری بیانیہ کو عام کرنے اور اس پر عمل درآمد کرنے کی ضرورت بڑھ رہی ہے۔ سب سے بڑھ کر، چین اور پاکستان کو مقامی، قومی اور علاقائی طور پر امن و استحکام کی اہمیت کو تقویت دیتے ہوئے مرکزی کردار ادا کرنا ہوگا۔ پاکستان نازک سکیورٹی صورتحال کا سامنا کر رہا ہے ۔
٭٭٭