پاکستان کی سیاست کی کھچڑی کو سمجھنا کسی کے بس کی بات نہیں، دنیا کے کسی بھی ماہر سیاست دان کو پاکستان کے سیاسی بستی میں لا کر بسا دیا جائے تو شاید کچھ عرصے بعد وہ آپ کی منتیں کرتا نظر آئے کہ خدارا مجھے کسی پاگل خانے پہنچا دو، اس سیاسی بستی زندہ رہنا کسی انسان کے بس کی بات نہیں۔ مختصرا کہا جائے تو پاکستان میں سیاست ایک ایسے سیاہ دھبے کا روپ اختیار کر چکی ہے، جس کی سیاہی نے ہر طرف گمراہی کا وہ اندھیرا پھیلا رکھا ہے کہ مقتول کا قاتل نظر ہی نہیں آ رہا ہے۔دنیا کے تمام مہذب ممالک سیاسی جمہوری نظام کو بہترین طرز حکومت جانتے ہیں جس میں حکمرانوں کو جواب دے ہونا پڑتا ہے اور عوام کارکردگی کی بنیاد پر اپنے حکمرانوں کا چنا کرتی ہے مگر پاکستان میں سیاسی جمہوری نظام کو ڈکٹیٹر شپ کا زہر پلا، کمیونزم کا نوالہ کھلا، مذہب کے خواب دیکھا اور سرمایہ داری کی آغوش میں بیٹھا کر ایک ایسا جن بنا دیا گیا ہے کہ جس کو بوتل میں بند کرنا آسان نہیں رہا۔پاکستان میں مہنگائی غربت سمیت دیگر مسائل اب شاید ثانوی حیثیت اختیار کرتے جا رہے ہیں، حقیقی طور پر دیکھا جائے تو کسی کو سمجھ ہی نہیں آ رہا کہ پاکستان میں کس نظام کو رائج کیا جائے جس سے ان تمام مسائل سے نمٹا جاسکے۔ پاکستان میں اکثر کا دوستوں سے بات چیت ہوتی ہے تو غربت اور بیروزگاری کا رونا رونے کے بعد ان کا اختتام اسی بات پر ہوتا ہے کہ فلاں جماعت ٹھیک ہے اور فلاں غلط ہے، فوج کو کنٹرول سنبھال لینا چاہیے یا فوج کو اب اس نظام سے دور ہو جانا چاہیے۔ مذہب کو سیاسی نظام سے الگ کر دینا چاہیے یا مذہب ہی کی وجہ سے پاکستان کی بقا ہے۔ وغیرہ وغیرہ۔پاکستان کی پیدائش سے لیکر اب تک کی صورتحال کا مطالعہ کریں تو ہمیں ایک بات واضح نظر آتی ہے کہ پاکستان کا سب سے بڑا مسئلہ “الجھن” ہے۔ ہم آج تک اُلجھے ہوئے ہیں کہ فاطمہ جناح غدار تھی یا محب وطن، فوج کو سیاست کرنی چاہئے یا فوج کو سیاست سے دور رہنا چاہیے، سیاستدان اچھے ہیں یا سیاستدان برے ہیں۔جب تک ہم اپنی اس الجھن سے نہیں نکل جاتے تب تک پاکستان کے مسائل جوں کے توں ہی رہیں گے، آئے روز ہمارا حکومتی بیانیہ بدلتا رہے گا، دنیا ہمارے موقف کو کبھی بھی سنجیدہ نہیں لے گی اور ہم ہر کچھ عرصے کے بعد بیٹھے یہی سوچتے رہیں گے کہ آخر الجھن کیا ہے۔درحقیقت ہمارا المیہ یہ ہے کہ ہم نے ہر اس حقیقت کو جس کو دنیا میں دربدر ہونے کے بعد تسلیم کرلیا، اسے اپنی خواہشات کے مطابق ڈالنے کی کوشش کرتے ہیں۔ پاکستان میں جمہوری نظام کے دعویدار ہونے کے باوجود پاکستانی اسٹیبلشمنٹ اپنی خواہشات کے مطابق اقتدار ہمیشہ اسی کے ساتھ جانے دیتی ہے جو ان کا ساتھ نبھائے، خود بھی کھائے اور انہیں بھی کھلائے۔
٭٭٭