علی بلال لاہور کے ایک غریب گھرانے کا ایک مستانہ نوجوان تھا جس کی عرفیت ظلے شاہ تھی وہ تحریک انصاف کا ایک سیاسی ورکر تھا لیکن بنیادی طور پر وہ عمران خان کا چاہنے والا ایک عام آدمی تھا جس کی دماغی صلاحیتیں کچھ ادھوری تھیں جس کی وجہ سے اسے ساتھی کارکنوں کے طنز و مزاح کا نشانہ بھی بننا پڑتا تھا لیکن یہ دیوانہ بیچارہ زمان خان میں عمران خان کا دروازہ نہیں چھوڑتا تھا وہ ان کے دروازہ کے باہر بیٹھا خان کے نعرے مارتا رہتا تھا اسے نہ کوئی عہدہ نہ وزارت چاہیے تھی اسے تو عشق تھا خان کیساتھ۔ بس وہ چاہتا تھا کہ کبھی خان میری آواز سن کر مجھے ملنے کا موقع فراہم کر دے یہی اس کی آرزو اور لالچ تھی۔ لیکن مہینوں کی تپسیا کے بعد بھی اس کی آرزو ادھوری رہی لیکن موت سے اس کی ملاقات ہو گئی۔ آج اس کی موت پاکستان کی سیاست کا ایک بڑا معمہ بن چکی ہے تحریک انصف ظلے شاہ کی موت کو نگران حکومت کے کھاتے میں ڈال کر اپنی مقبولیت میں اضافہ کرنا چاہتی ہے اور نگران حکومت نے ٹیکنالوجی کا سہارا لے کر ان لوگوں کا سراغ لگایا جو ظلے شاہ کا لہو لہان جسم لے کر ہسپتال میں چھوڑ کر چلے گئے تھے بلکہ غائب ہو گئے تھے کیونکہ انہیں ہسپتال کے وارڈ بوائے نے بتا دیا تھا کہ جس شخص کو زخمی حالت میں لائے تھے وہ مر چکا ہے۔ اسپتال لانے والوں کا تعلق بھی تحریک انصاف سے تھا اور جس گاڑی میں ڈال کر وہ لوگ ظلے شاہ کے نیم مردہ جسم کو لاد کر لائے تھے وہ بھی تحریک انصاف کے کارکن شفیع شاہ کی ملکیت تھی جس نے اس کی اطلاع ڈاکٹر یاسمین راشد کو دیدی تھی اور یاسمین راشد نے اس سارے قصے سے عمران خان کو زمان پارک جا کر زبانی بیان کر دیا تھا ظاہر ہے کہ اس حساس واقعہ کی اطلاع بذریعہ فون تو نہیں دی جا سکتی تھی کیونکہ ہر کوئی جانتا ہے کہ آج کل فون ٹیپ ہوتے ہیں اور خاص طور پر اگر فون عمران خان کا ہو تو پھر وہ ٹیپ ہونے سے بچ نہیں سکتا۔ بہرحال غیب کی خبر تو اللہ کو لیکن اس کے بعد اس کالے ڈالے (پک اپ) کو کسی مکان کی بیسمنٹ میں محفوظ کر دیا گیا لیکن اسپتال کی کیمرہ ریکارڈنگ کی مدد سے ظلے شاہ کو لانے والے اشخاص کی نہ صرف شناخت بھی ہو گئی بلکہ اس کالی گاڑی کا کھوج بھی لگا لیا گیا۔ لاہور پولیس نے فوراً اس واقعہ میں ہسپتال تک پہنچانے والی گاڑی کو اپنی تحویل میں لے کر اس کی فرانزک کروائی تو یہ ثابت ہو گیا کہ ظلے شاہ کا خون کے کچھ نمونے بھی گاڑی میں پائے گئے اب تویہ قتل کا مقدمہ تیار ہو گیا ہے جب مطلوبہ ڈرائیور اور اس کے سہولتکاروں سے پوچھ گچھ ہوئی تو انہوں نے اقرار میں زیادہ دیر نہیں لگائی اور تسلیم کیا کہ ظلے شاہ انہی کی گاڑی سے ٹکرایا تھا جس کی اطلاع گاڑی کے مالک شفیع شاہ کو دیدی گئی جنہوں نے تحریک انصاف کی سینئر رہنما ڈاکٹر یاسمین راشد کے گھر جا کر اطلاع دیدی۔ یاسمین راشد صاحبہ نے غالباً چیئرمین عمران خان کو اطلاع دی تو تحریک انصاف کے اکابرین تو ظلے شاہ کی موت کو پولیس اور نگران حکومت کے کھاتے میں ڈال چُکے تھے اس لئے انہوں ںے اپنے اسی بیانیہ کو جاری رکھنے کی ٹھانی اور فوراً ایک پریس کانفرنس کر کے بیان داغ دیا کہ ہمارے پاس اس پُرتشدد قتل کے شواہد موجود ہیں ان کے مطابق نہ صرف پہلے ظلے شاہ کو گرفتار کیا گیا تھا پھر بدترین تشدد کر کے لاش سڑک پر پھینک دی۔ زمان پارک کے دیوانے ظلے شاہ بیچارے کے پاس ایسے کونسے خفیہ راز تھے جن کیلئے لاہور پولیس کو اس پر تشدد کرنے کی ضرورت پڑی۔ ظلے شاہ تو بیچارہ باہر کھڑے ہو کر مہینوں نعرے مارتا رہا اور خان صاحب نے تو اس سے ملنا گوارہ بھی نہ کیا۔ اسے قتل کر کے کسی کو بدنامی کے علاوہ اور کیا ملنا تھا۔ اب لاہور پولیس کے پاس تمام شواہد ہیں کہ عمران خان، ڈاکٹر یاسمین راشد اور گاڑی کے مالک شفیع شاہ نے جان بوجھ کر حقائق کو چھپا کر لاہور پولیس کو بدنام کرنے کی کوشش کی۔
تازہ اطلاع ہے کہ تحریک انصاف کے تینوں رہنمائوں کیخلاف سازش کا مقدمہ اور پولیس سے اصل واقعات چھپانے کا مقدمہ بھی داخل ہو گیا۔ اس مقدمہ میں عمران خان کا نام بھی شامل ہے۔ کتنے افسوس اور بے حسی کا ثبوت دیا گیا ہے خان نے تو اپنے نعرے لگانے والے کی موت کو بھی اپنے سیاسی مقاصد کیلئے استعمال کر کے اقتدار اور اپنے درمیان فاصلہ کو مختصر کرنے کی ایک بھونڈی کوشش کر کے اپنے چھوٹے پن کا ثبوت دیا ہے۔ ظلے شاہ کے باپ کو بلا کر اس سے بڑی تیزی سے تعزیت بھی کر دی تھی لیکن جب ظلے شاہ کے والد کو تمام ثبوت دکھائے گئے تو ظلے شاہ کے والد اور والدہ نے تحریک انصاف کو حقائق چھپانے پر قتل کا مورد الزام ٹھہرایا اپنے ہی کارکن کی موت کو موڑ توڑ کر اپنے سیاسی فائدے کیلئے اس طرح کی حرکت کرنا تحریک انصاف کی بحیثیت ایک سیاسی جماعت ان کی خباثت کو عیاں کرتی ہے اور اس المیہ نے پاکستان میں سیاسی جماعتوں کی سیاسی کارکنان کیلئے بے حسی اور بے قدری کی داستان کو عیاں کر دیا ہے۔ تحریک انصاف ایک نئی امید لے کر آئی تھی کہ عام آدمی کے مسائل کو حل کرنے کا دعویٰ لے کر آئی تھی لیکن آج پاکستان کی عوام کو پتہ چل گیا کہ جو سیاسی جماعت اپنے ہی ایک ادنیٰ لیکن جانباز کاکرن کے خوف کا سودا کر سکتی ہے وہ عام آدمی کیلئے کیا کریگی نہ پچھلے ساڑھے تین سال میں کیا نہ ہی اگلے پانچ سال میں کریگی۔
٭٭٭